ٹکڑوں میں بٹی سوختہ لاش،کپوارہ میں کہرام

کپوارہ// شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع میں گذشتہ چار دنوں سے لاپتہ ایک معصوم بچے کی انتہائی مسخ کردہ لاش ملنے سے ضلع میں حالات کشیدہ ہوگئے ہیں جبکہ پوری وادی¿ کشمیر میں غم و الم اور خوف و حراس کی ملی جلی لہر دوڑ گئی ہے۔علاقہ کے ایک سرگرم سیاستدان نے پولس پر سُست روی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ عوام احساسِ عدمِ تحفظ کا شکار ہیں تاہم پولس نے ایک خصوصی انوسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی)تشکیل دی ہے اور مجرموں تک جلد پہنچنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

کپوارہ کے مضافاتی گاوں گلگام کے دس سالہ عمر فاروق والد فاروق احمد ملک 16جولائی شام 4بجے پُراسرارطورکہیں غائب ہوگئے تھے اور اگلے دن کوبچے کے والد نے پولس کو مطلع کیا تھا ۔بچے کے لواحقین اپنی طرفسے انکی تلاش جاری رکھے ہوئے تھے اور دوسری جانب پولس بھی اس معاملے کی تحقیقات کر ہی رہی تھی کہ جمعرات کی رات کو پڑوسی گاوں ،گوشی،کے ایک نالہ میں ایک بچے کی لاش پائے جانے کی خبر جنگل کی آگ ہوگئی۔حالانکہ لاش کو دل دہلادئے جانے کی حد تک مسخ کیا جاچکا تھا جسکی وجہ سے اسے پہچاننا مشکل ہورہا تھا تاہم پولس نے عمر فاروق کے والد کو بلایا تو انہوں نے لاش کے ساتھ بچے کے کپڑوں کے باقیات کو پہچان لیا۔

ایسا لگتا ہے کہ پولس اپنی مرضی اور مفاد کے مطابق ترجیحات طے کرتی ہے اور ان معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیاجاتا ہے کہ جن کا ملی ٹینسی کے ساتھ راست واسطہ نہ ہو۔(انجینئر رشید)

سوشل میڈیا پر وائرل ایک تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ معصوم بچے کا ایک بازو کاٹ دیا گیا ہے جبکہ لاش کو جلانے کی کوشش کی گئی ہے۔سوشل میڈیا پر یہ ہیبتناک تصویر آتے ہی نہ صرف کپوارہ میں بلکہ پوری وادی میں خوف و حراس اور غم و الم کی لہر جاری ہوگئی ہے۔

اس واقعہ کی خبر کے فوری بعد باتر گام اور یہاں کے پڑوسی دیہات میں کہرام مچ گیا اور لوگ رات بھر واویلا کرتے ہوئے اس واقعہ کی تحقیقات کرکے قاتلوں کو پکڑ لئے جانے کا مطالبہ کر نے لگے۔جمعہ کی صبح لوگوں نے بالآخر بچے کی لاش کو انتہائی غمناک ماحول میں دفن تو کر لیا تاہم علاقے میں مکمل ہڑتال رہی اور کئی جگہوں پر احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے۔سرکاری انتظامیہ نے اس واقعہ کی خبر پاتے ہی علاقہ کے کالجوں کو سنیچر کیلئے بند کردیا تھا تاکہ طلباءاحتجاجی مظاہرے نہ کرپائیں اور علاقہ میں حالات قابو سے باہر نہ ہوجائیں۔تاہم اسکے باوجود بھی علاقہ میں کئی جگہوں پر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ضلع کے بیشتر علاقوں میں لوگوں نے رضاکارانہ طور معمول کا کاروبار بند رکھا۔معصوم بچے کے گھر ہزاروں لوگوں نے حاضری دی اور ان میں تقریباََ سبھی کی آنکھیں نم تھیں جبکہ پورے علاقے میں خواتین کو سینہ کوبی کرتے دیکھا جاسکتا تھا۔

عمر فاروق سات بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے اور اس وجہ سے حد سے زیادہ لاڈلے تھے جیسا کہ انکے انیک رشتہ دار نے بتایا”یہ اس گھر کی امید تھا،والدین کے علاوہ ان بہوں کی آنکھ کا تارہ تھا،وہ اسے بڑا ہوکر اپنا سہارہ بنتے دیکھنا چاہتی تھیں مگر سب ختم ہوگیا“۔فاروق احمد ملک خود یومیہ مزدور ہیں اور اکثر دور سرحد کے قریب مزدوری کرتے ہیں جبکہ انکی زوجہ شریفہ اسی اسکول میں چپراسی کی نوکری کرتی ہیں کہ جہاں انکے لاڈلے تیسری جماعت کے طالبِ علم تھے۔گھر کی مالی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بچیاں آس پڑوس میں معمولی کام کرکے غریب والدین کا ہاتھ بٹاتی ہیں جبکہ سب سے بڑی بیٹی قریب تیس سال کی ہونے کو ہے اور ابھی انکی شادی ہونا باقی ہے۔

”یہ اس گھر کی امید تھا،والدین کے علاوہ ان بہوں کی آنکھ کا تارہ تھا،وہ اسے بڑا ہوکر اپنا سہارہ بنتے دیکھنا چاہتی تھیں مگر سب ختم ہوگیا“(ایک رشتہ دار)

بچے کے والدین کسی سے بات کرنے کی حالت میں نہیں تھے تاہم خاندان کے ایک رشتہ دار نے بتایا”چار دن قبل یہ بچہ اچانک ہی لاپتہ ہوگیا تھا،ہم نے اسے ہر ممکنہ جگہ پر تلاش کیا اور ساتھ ہی پولس کو بھی مطلع کیا۔ہمیں پولس سے کوئی شکایت نہیں ہے کیونکہ وہ بچے کی تلاش میں ہمارے ساتھ رہی لیکن ہمارے بچے کو جس درندگی کے ساتھ قتل کرکے جلایا گیا ہے وہ انتہائی ہیبتناک اور قابل مذمت ہے“۔خاندان کے ایک اور شخص نے کہا”اتنی درندگی تو خود ایک درندہ بھی نہیں کرسکتا ہے بلکہ اسکا تصور تک کرنا ناممکن ہے،ہم چاہتے ہیں کہ قاتلوں کو جلد سامنے لایا جائے تاکہ ہمارا درد کچھ کم ہوسکے حالانکہ اسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ہے“۔

سرگرم سیاستدان اور کپوارہ کے حلقہ انتخاب لنگیٹ کے ممبر اسمبلی انجینئر رشید نے اس واقعہ کیلئے پولس کی سُستی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے”جہاں پولس اور دیگر سکیورٹی ایجنسیاں آئے دنوں بڑی بڑی گینگوں اور بڑے بڑے معموں کو حل کرنے کی دعویداری لئے سامنے آتی ہیں وہیں آج عام لوگ یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان فورسز کیلئے ایک دس سالہ بچے کے اغوا کا معاملہ تب تک کیوں حل نہ ہوسکا کہ جب تک اسے بے رحمی کے ساتھ قتل کرکے اسکی لاش چھوڑ دی گئی۔ایسا لگتا ہے کہ پولس اپنی مرضی اور مفاد کے مطابق ترجیحات طے کرتی ہے اور ان معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیاجاتا ہے کہ جن کا ملی ٹینسی کے ساتھ راست واسطہ نہ ہو۔اگر لوگ اپنے گھروں میں خوفزدہ محسوس کرتے ہیں اور بچے اپنے گھر آنگن میں بھی محفوظ نہیں ہیں تو پھر پولس کو اپنا محاسبہ کرتے ہوئے خود ہی طے کرنا چاہیئے کہ لوگ کو احساس تحفظ دلانے کی اسکی دعویداری کتنی صحیح ہے“۔

معصوم بچے کو واپس تو نہیں لایا جاسکتا ہے تاہم پولس مجرموں کو جلد پکڑنے کی کوشش کرے گی۔(پولس افسر)

پولس کے ایک افسر نے تاہم بتایا کہ انہوں نے بچے کو ڈھونڈنے کی کارروائی جاری رکھی ہوئی تھی لیکن بد قسمتی سے مجرم یا مجرموں نے زیادہ وقت نہیں دیا۔انہوں نے کہا”بچے کے والد نے لاش کی شناخت کرلی ہے اور ہم نے پوسٹ مارٹم کرواکے لاش کو لواحقین کے سپرد کردیا ہے۔یہ انتہائی ہیبتناک واقع ہے حالانکہ کشمیر میں اس طرح کی درندگی پہلے نہیں ہوتے دیکھی گئی ہے۔بچے کی لاش کا برا حال دیکھا نہیں جاسکتا تھا“۔انہوں نے کہا کہ پولس نے پہلے ہی گمشدگی کی رپورٹ درج کی ہوئی تھی جسے ایف آئی آرنمبر192/2018میں بدل کر رنبیر پینل کوڈ کی دفعات363اور302 کے تحت کارروائی شروع کی گئی ہے۔ضلع کے سینئر سپرانٹنڈنٹ آف پولس (ایس ایس پی) نے بتایا کہ انہوں نے اس اندوہناک واقعہ کی تحقیقات کیلئے ایک ایس آئی ٹی تشکیل دی ہے جسکی سربراہی ایک ایڈشنل ایس پی کو سونپی گئی ہے جبکہ وہ(ایس ایس پی)ٹیم کے کام کی خود نگرانی کرینگے۔انہوں نے کہا کہ معصوم بچے کو واپس تو نہیں لایا جاسکتا ہے تاہم پولس مجرموں کو جلد پکڑنے کی کوشش کرے گی۔

سالِ رواں کے اوائل میں جموں کے کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ بچی کا اغوا ہوا تھا اور پھر اسکی پامال شدہ لاش مقامی جنگل سے ملی تھی تاہم کشمیر میں اس طرح کے واقعات عام نہیں ہیں ۔حالانکہ حالیہ برسوں کے دوران یہاں کئی بچے اچانک لاپتہ ہوچکے ہیں تاہم اس بے رحمی کے ساتھ کسی بچے کو ختم کئے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے جس نے پوری وادی کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔

Exit mobile version