سرینگر// جموں کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے پاکستان اور دیگر ممالک سے چلائی جانے والی زائد از تیس معروف اسلامی ٹیلی ویژن چینلوں پر پابندی لگائی ہے۔انتظامیہ نے کہا ہے کہ یہ اقدام وادی کشمیر میں ”امن و آشتی“کیلئے اٹھایا گیا ہے۔گورنر انتظامیہ کے اس اقدام کی تاہم مختلف حلقوں نے یہ کہتے ہوئے مذمت کی ہے کہ اس سے اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن لگ گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ سرینگر کے ایڈیشنل ضلع کمشنر نے 12جولائی کو کیبل آپریٹروں کے نام ایک حکم نامہ جاری کرکے انہیں زائد از تیس ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات بند کرنے کیلئے کہا ہے۔اس حکم نامہ میں محکمہ داخلہ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کیبل آپریٹروں کو مطلع کیا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی طور کئی سٹیلائٹ ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔حکم نامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ وادی میں امن و آشتی کو بر قرار رکھنے کیلئے ان چینلوں کی نشریات پر پابندی لگانا ضروری بن گیا ہے۔کیبل آپریٹروں کو لکھا گیا ہے”آپ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ ان بغیر اجازت کی ٹیلی ویژن چینلوں/ممنوعہ نجی سٹیلائٹ چینلوں کی نشریات تین دن کے اندر اندر بند کریں“۔ان کیبل آپریٹروں کو حکم کی تعمیل سے متعلق ایڈیشنل ضلع کمشنر کے سامنے بیانِ حلفی دائر کرنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ بصورتِ دیگر تادیبی کارروائی سے متنبہ کیا گیا ہے۔
”ہم ان مذہبی چینلوں پر چلائے جانے والے مذہبی پروگراموں سے مستفید ہوتے تھے لیکن دیکھیں کہ کس طرح انہیں بند کرادیا گیا ہے۔آخر خالص مذہبی پروگرام چلانے والے ٹیلی ویژن سے کس طرح حالات خراب ہوسکتے ہیں جبکہ خرافات دکھانے والے چینلوں پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے“۔
سرینگر کے ایک معروف کیبل آپریٹر نے انہیں مذکورہ حکم نامہ ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن چینلوں کو بند کئے جانے کا حکم جاری ہوا ہے ان میں بیشتر اسلامی چینل شامل ہیں۔انہوں نے کہا”ہمیں پاکستان اور دیگر ممالک سے چلنے والے اسلامی چینل بند کرنے کیلئے کہا گیا ہے حالانکہ حکم نامہ میں کہیں اسلامی لفظ درج نہیں ہے۔جن چینلوں پر روک کیلئے کہا گیا ہے ان میں جیو، اے آر وائی،کیو ٹی وی،سعودی قران،ہادی،سعودی،کربلا،پیغام،پیس ٹی وی اردو و دیگر چینل شامل ہیں“۔انہوں نے کہا کہ یہ چینل زیادہ تر مذہبی پروگرام چلاتے ہیں لیکن انہیں سمجھ نہیں آتا کہ ان پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیونکر لیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ حکم کی تعمیل کرینگے تاہم وہ آئیندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کیونکہ اس حکم کے سامنے آنے کے بعد لوگوں نے انکے کنشکشن کاٹ دئے جانے کیلئے کہا ہے۔
وادی کشمیر میں اس سے قبل عمر عبداللہ کی حکومت نے مقامی نیوز چینلوں پر پابندی لگائی تھی اور اس پابندی کیلئے بھی وادی میں امن و قانون کی صورتحال کو وجہ بتایا گیا تھا حالانکہ ”قومی نیوز چینلوں“پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے کہ جنکے پروگرام اشتعال انگیز پائے گئے ہیں۔ ان چینلوں کی جانب سے کشمیر میں جاری بد امنی کو ہوا دئے جانے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مرکزی مذاکرات کار دنیشور شرما نے ،مبینہ طور،مرکزی حکومت سے ان چینلوں کو کشمیریوں کو اکسانے اور ان میں نفرت پھیلانے کے پروگرام نہ چلانے کی ہدایت دینے کا مشورہ دیا تھا۔تاہم ان چینلوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے جبکہ خالصتاََ مذہبی پروگرام چلانے والی چینلوں کو ممنوعہ قرار دیا جا چکا ہے۔
گورنر انتظامیہ کے اس فیصلے کو لیکر وادی میں زبردست غم و غصہ اور ناراضگی پھیل گئی ہے۔سرینگر کے پائین شہر میں ایک شہری نے بتایا”ہم ان مذہبی چینلوں پر چلائے جانے والے مذہبی پروگراموں سے مستفید ہوتے تھے لیکن دیکھیں کہ کس طرح انہیں بند کرادیا گیا ہے۔آخر خالص مذہبی پروگرام چلانے والے ٹیلی ویژن سے کس طرح حالات خراب ہوسکتے ہیں جبکہ خرافات دکھانے والے چینلوں پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے“۔کشمیری یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے ایک طالب علم نے اس فیصلے کو حیران کن بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک طرف اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ ہے تو دوسری جانب اس سے پہلے سے پشت بہ دیوار محسوس کررہے کشمیریوں میں اور زیادہ شکوک پیدا ہوسکتے ہیں۔