سرینگر// جموں کشمیر پولس نےمنگل کو یہاں ایک مرکزی اسکیم کے تحت محکمہ تعلیم میں بھرتی کئے جاچکے درجنوں اساتذہ کو اسوقت گرفتار کر لیا کہ جب ساتویں تنخواہ کمیشن کے نفاذ اور وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی کے جیسے مطالبات کو لیکر سینکڑوں اساتذہ کا ایک جلوس راج بھون کی جانب مارچ کرنے لگا۔احتجاجی اساتذہ کا پروگرام گورنر این این ووہرا کی رہائش گاہ کے سامنے دھرنا دیکر اپنے مطالبات کی جانب انکی توجہ موڑنے کی کوشش کرنا تھا،پولس نے تاہم انکی کوشش کو بزورِ بازو ناکام بنادیا۔
اساتذہ کی ایک تنظیم نے پہلے سے مشتہر کردہ ایک پروگرام کے تحت سینکڑوں اساتذہ کو لالچوک کے قریب جمع کیا اور پھر ان لوگوں نے راج بھون کی طرف جلوس لیجانے کی کوشش کی۔احتجاجی مظاہرین مرکزی اسکیم سروشکھشا ابھیان یا (ایس ایس اے)کے تحت کام کرنے والے سینکڑوں اساتذہ کو ساتویں تنخواہ کمیشن کے فوائد دینے اور انہین وقت پر تنخواہیں ادا کرنے کے جیسے مطالبے کر رہے تھے۔معلوم ہوا ہے کہ ان اساتذہ کو مرکز سے ملنے والی رقومات میں سے تنخواہیں واگذار کی جاتی ہیں اور اس مد کی واگذاری میں بسا اوقات مہینے لگ جاتے ہیں اور تب تک ان اساتذہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اتنا ہی نہیں ریاستی سرکار کے دیگر ملازمین کے برعکس ان اساتذة کو ساتویں تنخواہ کمیشن کے دائرے میں بھی نہیں لایا گیا ہے۔
”ہم شدید مشکلات سے دوچار ہیں کبھی کبھی ہماری تنخواہیں مہینوں رکی رہتی ہیں اور تب تک ہمارے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آجاتی ہے،ہم نے کئی بار سرکار سے مطالبہ کیا کہ ہماری تنخواہ کو مرکزی وزارتِ انسانی وسائل کی دست رست سے نکال کر ریاستی سرکار کی تحویل میں لیا جائے تاکہ دیگر ملازمین کی طرح ہی ہماری تنخواہیں بھی وقت پر واگذار کی جاتی رہیں“۔
چناچہ جونہی مظاہرین کے جلوس نے لالچوک کے بغل میں واقع میونسپل پارک سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کی یہاں پہلے سے تعینات پولس کے سینکڑوں اہلکار اس پر ٹوٹ پڑے۔پولس نے جلوس کو تتر بتر کرنے کیلئے نہ صرف لاٹھی چارج کیا بلکہ تیز دھار والے رنگین پانی کا بھی استعمال کیا گیا جو مختلف مطالبات کیلئے احتجاج کرنے والوں کو دبانے کیلئے کئی سال سے ریاستی پولس کا آزمودہ حربہ ہے۔پولس کارروائی میں کئی مظاہرین کو چوٹیں آئیں جبکہ درجنوں کو گرفتار کر لیا گیا جن میں ان اساتذہ کی انجمنوں کے ذمہ داران بھی شامل ہیں۔
رنگین پانی سے لت پت ایک استاد نے بتایا”ہم اپنے مطالبات کیلئے یہ مظاہرہ کرنا چاہتے تھے جو ہمارا جمہوری حق ہے لیکن آپ دیکھیں کہ پولس نے کس طرح بے تحاشا طاقت کا استعمال کرکے ہماری یہ حالت بنائی“۔تشدد کا شکار ہوئے ایک اور استاد نے بتایا”ہم شدید مشکلات سے دوچار ہیں کبھی کبھی ہماری تنخواہیں مہینوں رکی رہتی ہیں اور تب تک ہمارے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آجاتی ہے،ہم نے کئی بار سرکار سے مطالبہ کیا کہ ہماری تنخواہ کو مرکزی وزارتِ انسانی وسائل کی دست رست سے نکال کر ریاستی سرکار کی تحویل میں لیا جائے تاکہ دیگر ملازمین کی طرح ہی ہماری تنخواہیں بھی وقت پر واگذار کی جاتی رہیں“۔ایک ملازم لیڈر نے بتایا”یہ کس قدر ظلم ہے کہ باقی محکموں کے ملازمین دو ایک مہینوں سے ساتویں تنخواہ کمیشن کا فائدہ لے رہے ہیں لیکن ہمیں ابھی تک ان فوائد سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ہم یہی چند مطالبات لیکر گورنر صاحب سے ملنا چاہتے تھے لیکن انکی فورسز نے ہماری یہ درگت بنائی“۔
”ہم اپنے مطالبات کیلئے یہ مظاہرہ کرنا چاہتے تھے جو ہمارا جمہوری حق ہے لیکن آپ دیکھیں کہ پولس نے کس طرح بے تحاشا طاقت کا استعمال کرکے ہماری یہ حالت بنائی“۔
ایک پولس افسر نے بتایا کہ مظاہرین کو پہلے پر امن طور منتشر ہونے کیلئے کہا گیا تھا تاہم وہ جلوس لیکر راج بھون جانے پر بضد رہے جس سے مجبور ہو کر جلوس کو روکنا پڑا ہے۔انہوں نے مظاہرین پر تشدد کرنے سے انکار کیا اور بتایا کہ رنگین پانی کی دھار سے انہیں منتشر کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امن و قانون کی صورتحال کو بنائے رکھنے کیلئے کچھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔