سرینگر// وادی کشمیر کے حالات کو الیکشن کے لئے غیر موذون قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائبِ صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ان حالات میں کشمیریوں کو الیکشن کیلئے تیار ہونے کیلئے کہنا” بڑی بے انصافی “ہوگی۔ بھاجپا-پی ڈی پی حکومت کے گذشتہ ماہ گرنے کے بعد ریاست میں نافذ گورنر راج کے بیچ” تھرڈ فرنٹ “بننے کی تیاری ہونے کی افواہوں پر ردعمل کے اظہار میں عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ کسی کو بھی اپنی سیاسی پارٹی بنانے کا حق ہے لیکن کشمیریوں کو سوچنا چاہیئے کہ انکا ووٹ تقسیم نہ ہونے پائے۔پارٹی ہیڈکوارٹر پر ایک اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا ”یہ کہنا کہ جموں وکشمیر کی سیاست پر شیخ خاندان یا کسی اور مخصوص خاندان کا حق ہے،غلط ہے۔ ہر کسی کو اپنی جماعت قائم کرنے اور عوام کے پاس جانے کا حق ہے، تاہم لوگوں کو ایسی کسی کوشش سے اجتناب کرنا چاہئے جس سے کشمیریوں کی آواز تقسیم اور بے وزن ہوجائے“۔ عمر عبداللہ کا یہ بیان ان افواہوں کے بیچ سامنے آیا ہے کہ محبوبہ مفتی کی پی ڈٰ پی سے نکل کر کچھ ممبرانِ اسمبلی ایک ”تھرڈ فرنٹ“ بنانے کو ہیں۔بعض مبصرین کا اندازہ ہے کہ اگر یہ محاذ بنا تو یہ پی ڈٰ پی کے ساتھ ساتھ نیشنل کانفرنس کیلئے بھی ایک بڑا مسئلہ ثابت ہوسکتا ہے۔
” ہم نے گورنر صاحب سے کہہ دیا ہے کہ جب تک حالات ٹھیک نہیں ہونگے تب تک ہم الیکشن کے بارے میں نہیں سوچ سکتے ہیں۔ اگر گورنر صاحب کو پنچایت الیکشن کیلئے حالات ٹھیک لگ رہے ہیں تو ہم انہیں نہیں روک سکتے، لیکن جب ہم سے آراٗ پوچھی جائے گی تو ہم اپنے خدشات اور تحفظات ظاہر کردیں گے“۔
حکومت گر جانے کے بعد جہاں پی ڈٰ پی کا کہیں اتہ پتہ ہی نہیں ہے وہیں اپوزیشن میں رہی نیشنل کانفرنس میٹنگوں پر میٹنگیں کر رہی ہے اور پارٹی نے سرینگر میں اپنے ہیڈ کوارٹر کے باہر بھی کارکنوں کو متحرک کرنا شروع کیا ہے۔عمر عبداللہ نے تاہم دعویٰ کیا ہے کہ یہ سرگرمیاں الیکشن سے متعلق نہیں ہیں۔اپنے خطاب میں عمر عبداللہ نے کہا ” ہم کسی الیکشن کی تیاری کیلئے میٹنگیں نہیں بلاتے ہیں۔ موجودہ دور میں، جب شہری ہلاکتیں، مار دھارڈ، خون خرابہ اور انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہوں ، یہ سمجھنا کہ لوگ الیکشن کیلئے تیار ہوجائیں گے بہت بڑی ناانصافی ہوگی“۔انہوں نے مزید کہا ” ہم نے گورنر صاحب سے کہہ دیا ہے کہ جب تک حالات ٹھیک نہیں ہونگے تب تک ہم الیکشن کے بارے میں نہیں سوچ سکتے ہیں۔ اگر گورنر صاحب کو پنچایت الیکشن کیلئے حالات ٹھیک لگ رہے ہیں تو ہم انہیں نہیں روک سکتے، لیکن جب ہم سے آراٗ پوچھی جائے گی تو ہم اپنے خدشات اور تحفظات ظاہر کردیں گے“۔ واضح رہے کہ گورنر این این ووہرا نے اگلے دنوں میں ریاست کے اندر پنچایتی اور میونسپل الیکشن کرانے کا عندیہ دیا ہے جنہیں پہلے کئی بار موخر کیا جاتا رہا ہے۔وادی کے حالات تاہم کسی بھی طرح انتخابات کے لئے موذون نہیں ہیں جیسا کہ عمر عبداللہ نے بھی کہا ہے۔
حکومت کی خراب کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گورنر راج کے نفاذ پر کسی نے ناراضگی کا اظہار تک نہیں کیا ہے بلکہ،بقول انکے،لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔
محبوبہ مفتی کی قیادت والی بھاجپا- پی ڈی پی حکومت کی شدید تنقید کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ گئی حکومت کی خراب کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گورنر راج کے نفاذ پر کسی نے ناراضگی کا اظہار تک نہیں کیا ہے بلکہ،بقول انکے،لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ریاست کے مختلف علاقوں میں نظریات اور سوچ کے فاصبے بڑھتے جارہے ہیں یہاں تک کہ ”جو جموں والوں کو اچھا لگتا ہے کہ وہ کشمیریوں کو اچھا نہیں لگتا اور جو کشمیریوں کو اچھا لگتا ہے وہ جموں والوں کو ہضم نہیں ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود پی ڈی پی بھاجپا حکومت کے گر جانے کا پوری ریاست کے لوگوں نے استقبال کیا“۔