مہلوک سکھ خاتون کے رشتہ داروں کاپولس پر سُست روی کا الزام

سرینگر// مہجور نگر میں پُراسرار حالات میں مردہ پائی گئیں ایک سکھ خاتون کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ پولس اس معاملے میں مشکوک اور معنیٰ خیز سُستی دکھا رہی ہے ۔انکا کہنا ہے کہ بظاہر خود کشی کا معاملہ دکھائی دینے والا یہ معاملہ دراصل گھریلو تشدد اور قتل کا معاملہ ہے لیکن پولس ،مبینہ طور،جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ کے سُسرال والوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

چھانہ پورہ سرینگر کی پربجوت سنگھ کو ر کو گذشتہ ہفتے مہجور نگر میں اپنے سُسرال میں چھت کے ساتھ لٹکتے ہوئے پایا گیا تھا اور پھر انہیں صدراسپتال میں مردہ قرار دیا گیا تھا۔ایک بچے کی والدہ پربجوت کی شادہ چھ سال قبل ہوئی تھی اور انکی ازدواجی زندگی ناخوشگوار چل رہی تھی۔انکے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ ،بقول انکے،قتل ہونے سے ایک دن قبل وہ میکے آئی تھیں اور انہوں نے ایک بار پھر سُسرال والوں کی اذیتوں کی شکایت کی تھی۔انکا الزام ہے کہ پربجوت پر انکے شوہر اور دیگر سُسرالی رشتہ داروں نے کئی بار تشدد کیا تھا اور آخری بار بھی غالباََ ان پر تشدد کیا گیا جس سے انکا قتل ہوا تاہم جرم چھپانے کیلئے اسے خود کشی کا واقعہ ظاہر کرنے کیلئے پہلے سے مری ہوئیں اس بد نصیب خاتون کی لاش کو چھت سے لٹکایا گیا۔

”وہ بہت ہی پیاری بچی تھی لیکن افسوس کہ شادی کے بعد اسے بہت برے دن دیکھنا پڑے،وہ سُسرال میں نہیں بلکہ نرگ (جہنم)میں رہ رہی تھی“۔

حالانکہ پولس نے ایک معاملہ درج کیا ہوا ہے تاہم مذکورہ خاتون کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ کئی ”واضح ثبوتوں“کے باوجود بھی پولس سُست روی کا مظاہرہ کررہی ہے۔چناچہ بدھ کے روز سوگوار خاندان نے یہاں کی پریس کالونی میں احتجاجی مظاہرہ کرکے انصاف کیلئے آواز لگائی۔مظاہرین ،جن میں کئی خواتین،بزرگ اور بچے شامل تھے،نے ہاتھوں میں انصاف کے نعروں والی تختیاں اٹھارکھی تھیں ۔مظاہرین نے مہلوک خاتون کی تصویریں بھی ساتھ لائی تھیں جنکے مطابق وہ بڑی معصوم اور خوبصورت عورت رہی ہیں۔ایک احتجاجی خاتون نے کہا”وہ بہت ہی پیاری بچی تھی لیکن افسوس کہ شادی کے بعد اسے بہت برے دن دیکھنا پڑے،وہ سُسرال میں نہیں بلکہ نرگ (جہنم)میں رہ رہی تھی“۔انہوں نے مزید کہا کہ پربجوت نے بار بار سُسرال والوں کی جانب سے پریشان کئے جانے کی شکایت کی تھی۔انہوں نے کہا کہ دراصل مذخورہ خاتون سے بار بار جہیز کے مطالبات کئے جاتے تھے اور اسی لئے انہیں پریشان کیا جاتا تھایہاں تک کہ انہیں قتل کیا گیا۔ایک بزرگ سکھ نے الزام لگایا ”یہ معاملہ قتل کا ہے اور اس حوالے سے کئی ثبوت بھی ہیں لیکن جانے کیوں پولس قاتلوں کو گرفتار کرنے میں لیت و لعل کر رہی ہے“۔پولس کا تاہم کہنا ہے کہ معاملے کے حوالے سے ایک معاملہ درج ہے اور تحقیقات جاری ہے۔ایک پولس افسر نے کہا”ہم تحقیقات کررہے ہیں لیکن ابھی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنا باقی ہے،ہم سوگوار خاندان کا درد سمجھ سکتے ہیں لیکن انہیں تھوڑا صبر سے کام لینا چاہیئے“۔

دریں اثنا اس واقعہ نے ایک بار پھر سماج کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے ۔کبھی اس طرح کے جرائم کا صفر ریکارڈ رکھنے والی وادی میں کچھ وقت سے آئے دنوں اس طرح کے واقعات پیش آتے دکھائی دینے لگے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ پولس کو اس طرح کے معاملات میں اپنا کام تیز کرکے قصورواروں کو قانون میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دیتے ہوئے جلد دبوچ لینا چاہیئے تاکہ اس طرح کے واقعات پر روک لگائی جاسکے۔چھانہ پورہ میں سوگوار سکھ خاندان کے یہاں انکے رشتہ داروں کے علاوہ مقامی مسلمانوںکو تانتا بندھا ہوا ہے جو انکے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے آتے ہیں۔گذشتہ روز اشرف صحرائی کی ہدایت پر تحریکِ حریت کے ایک وفد نے بھی یہاں آکر سوگوار خاندان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قصورواروں کیلئے سخت سزا کا مطالبہ کیا ۔

Exit mobile version