کولگام// جنوبی کشمیر میں گذشتہ روز فوج کے ہاتھوں مارے گئے لشکر طیبہ کے ایک مقامی کمانڈر۔شکور ڈار،کی نمازِ جنازہ میں قریب پچاس ہزار لوگوں نے شرکت کرکے سرکاری ایجنسیوں کو ایک بار پھر ورطہ حیرت میں ڈال کر انکی پریشانیاں بڑھادی ہیں۔شکور ڈار کی کم از کم دس بار نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور اس دوران انکے مسلح ساتھیوں نے آکر ہوا میں گولیوں کے کئی راونڈ چلا کر اپنے کمانڈر کو فوجی طرز کی سلامی دی۔
شکور احمد ڈار،جو حافظِ قران اورعالم دین تھے،جولائی 2016میں حزب المجاہدین کے نامور کمانڈر برہان وانی کے مارے جانے کے لگ بھگ دوماہ بعد 30ستمبر2016کوشکوراچانک گھرسے لاپتہ ہوگئے تھے اور پھر انہوں نے سوشل میڈیا پر بندوق تھامے اپنی تصویر جاری کرکے اپنے جنگجو بننے کا اعلان کیا تھا جیسا کہ نئے کشمیری جنگجووں کا معمول بن چکا ہے۔اسکے بعد شکور ایک نامور جنگجو کمانڈر کے بطور ابھرکر سرکاری ایجنسیوں کا دردِ سر ہوگئے تھے۔حالانکہ انہیں ڈھونڈنے کیلئے انکے گھر پر درجنوں مرتبہ چھاپے مارے گئے،یہاں تک کہ آج جب وہ مارے گئے ہیں انکے دو بھائی بدستور حراست میں ہیں،تاہم وہ فورسز کو چکمہ دیتے رہے۔سرکاری فورسز کو کئی بار چکمہ دیکر فرار ہوتے رہے ڈار کو مار گرانے میں سرکاری فورسز کو باالآخر کل اسوقت کامیابی ملی کہ جب انہیں اپنے ایک ساتھی سمیت گھیر لیا گیا اور پھر ایک شدید لڑائی کے دوران انہیں جاں بحق کردیا گیا۔اس کارروائی کے دورام مقامی لوگوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ڈار کو فرار ہونے میں مدد دینے کی کوشش کی تھی تاہم فورسز نے پہلے ہی کئی دائروں والا گھیراو کرکے فرار کے سبھی راستے بند کئے ہوئے تھے۔چناچہ احتجاجی مظاہروں کے دوران ایک عام شہری کی جان گئی تھی جبکہ دیگر کئیوں کو گولیاں یا پیلٹ لگے تھے اور وہ اب بھی زیرِ علاج ہیں۔
جلوسِ جنازہ میں اسوقت جذباتی مناظر بنتے دیکھے گئے اور کچھ دیر کیلئے افراتفری بھی پھیل گئی کہ جب لشکر کمانڈر کے مسلح ساتھیوں نے آکر اپنے کمانڈر کو فوجی طرز کی سلامی دینے کیلئے ہوا میں کئی گولیاں چلائیں۔
چناچہ شکور ڈار کا جسدِ خاکی جونہی انکے آبائی گاوں ،کولگام کے سوپت ۔ٹنگ پورہ،پہنچایا گیا تو گویا یہاں لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔عینی شاہدین نے بتایا کہ صبح سویرے سے آس پڑوس کے لوگوں نے یہاں پہنچنا شروع کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے گاوں میں جس طرف نظر جاتی وہاں لوگوں کے ریلے نظر آںے لگے یہاں تک کہ تیس ہزار انسونوں کو سمونے کی جگہ رکھنے والا ایک میدان آن کی آن میں بھر گیا۔بتایا جاتا ہے کہ شکور کی پہلی نمازِ جنازہ صبح آٹھ بجے پڑھی گئی تاہم لوگ آتے رہے اور یوںدوپہر ہونے تک کم از کم دس بار نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور اس دوران لوگ ”اسلام،آزاد،پاکستان اورجنگجووں کے حق میں اور مرکزی سرکار و ریاستی سیاسی پارٹیوں کے خلاف“نعرہ بازی کرتے رہے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جلوسِ جنازہ میں بچوں،بزرگوں اور خواتین کے مقابلے میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی جو کولگام سے ہی نہیں بلکہ پڑوسی اضلاع سے آکر جلوسِ جنازہ میں شریک ہوئے ذرائع کے مطابق لشکر طیبہ کے ایک پاکستانی کمانڈر،ابو قاسم، اور حزب کمانڈر بُرہان وانی کے جلوس ہائے جنازہ کے بعد یہ تیسرا ایسا جنازہ دیکھا گیا کہ جس میں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نے شرکت کی ہو۔یاد رہے کہ ابو قاسم اور برہان وانی کے جنازوں میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ تک لوگوں نے شرکت کی تھی اور یہ ابو قاسم کے جنازے میں لوگوں کی کثیر تعداد کی شرکت کا ہی نتیجہ تھا کہ جموں کشمیر پولس نے تب سے کسی بھی غیر ملکی جنگجو کی نعش لوگوں کو سونپنے کی بجائے اسے خاموشی کے ساتھ از خود شمالی کشمیر کے ایک ویرانے میں زمین برد کرنے کا طریقہ اپنا یا ہے۔چناچہ شکور ڈار کے ساتھ مارے گئے غیر ملکی جنگجو کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا تاہم ڈار کے یہاں قریب پچاس ہزار افراد کا مجمعہ دیکھا گیا۔
جلوسِ جنازہ میں اسوقت جذباتی مناظر بنتے دیکھے گئے اور کچھ دیر کیلئے افراتفری بھی پھیل گئی کہ جب لشکر کمانڈر کے مسلح ساتھیوں نے آکر اپنے کمانڈر کو فوجی طرز کی سلامی دینے کیلئے ہوا میں کئی گولیاں چلائیں۔ذرائع کے مطابق ان مسلح افراد کی تعداد کم از کم تین تھی۔عینی شاہدین کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ مسلح جنگجووں کو دیکھنے اور ان سے ہاتھ ملانے کیلئے لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے اور یہاں کچھ دیر کیلئے افراتفری مچ گئی۔تاہم مسلح نوجوان اپنے ساتھی کا آخری دیدار کرنے کے فوراََ بعد نامعلوم سمت میں نکل گئے۔واضح رہے کہ دو ایک سال سے جہاں جنگجووں کی نماز جنازہ میں ہزاروں عام لوگوں نے شرکت کرنا شروع کیا ہے وہیں جنگجووں کو جہاں موقعہ ملے وہ مارے جاچکے اپنے ساتھیوں کو سلامی دینے کیلئے یہاں حاضر ہوکر ہوا میں گولیاں چلاتے ہیں۔ایک پولس افسر کا کہنا ہے کہ اس بات کا ایک مقصد جنگجووں کا اپنے ساتھیوں کے تئیں احترام ہوتا ہے اور دوسرا اس سے وہ نئے لڑکوں کو جنگجوئیت کی جانب راغب کرنا چاہتے ہیں۔
جموں کشمیر پولس اس بات پر غور کر رہی ہے کہ غیر ملکی جنگجووں کے ساتھ ساتھ مقامی جنگجووں کی نعشیں بھی انکے لواحقین کو سونپنے کی بجائے چپ چاپ کہیں زمین برد کی جاتی رہیں
جموں کشمیر پولس نے حال ہی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں پایا ہے کہ جنگجووں کے جنازوں میں لوگوں کی بھاری تعداد کی شرکت نئے لڑکوں کو لبھانے کی ایک بڑی وجہ بنی ہوئی ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی پایا گیا ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی نامور جنگجو مارے جاتے ہیں مہینے بھر تک اسی علاقے میں کوئی نہ کوئی نیا لڑکا ہتھیار اٹھانے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ذرائع کے مطابق اس رپورٹ کے تناظر میں جموں کشمیر پولس اس بات پر غور کر رہی ہے کہ غیر ملکی جنگجووں کے ساتھ ساتھ مقامی جنگجووں کی نعشیں بھی انکے لواحقین کو سونپنے کی بجائے چپ چاپ کہیں زمین برد کی جاتی رہیں تاکہ انکے جلوس ہائے جنازہ میں لوگوں کی بھاری تعداد میں شرکت کے امکان کو ختم کیا جاسکے۔