عمر عبداللہ کو بھاجپا کے جگاڑ کا خدشہ،تحلیلِ اسمبلی کا مطالبہ

سرینگر// بی جے پی کی طرفسے اچانک ہی پی ڈی پی کی حکومت گرادینے کے بعد جموں کشمیر میں سیاسی افراتفری کا ماحول ہے۔حالانکہ یہاں کی سیاسی پارٹیوں کے ممبرانِ اسمبلی کی تعداداور ان پارٹیوں کے متضاد نظریات کو دیکھتے ہوئے کسی نئے اتحاد کی کوئی صورت نظر تو نہیں آتی ہے تاہم سابق وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر عمر عبداللہ نے بی جے پی کی جانب سے کوئی ”جوڑ توڑ“کی کوششیں کرنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔انہوں نے اسمبلی کو ،جسے گورنر این این ووہرا نے معطل رکھا ہے،فوری طورتحلیل کرکے نئے انتخابات کے ذرئعہ لوگوں کو ”ٓپنی مرضی کی سرکار“بنانے کا موقعہ دئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ بی جے پی نے منگل کو اچانک ہی محبوبہ مفتی کی حمایت واپس لیکر انکی سرکار گرادی تھی اور بدھ کی صبح سے ریاست میں باضابطہ گورنر راج نافذ ہوا ہے۔ان حالات میں یہاں سیاسی افراتفری پھیل گئی ہے اور مختلف قسم کی افواہیں گشت میں ہیں۔حالانکہ گورنر این این ووہرا کی مدتِ کار اگلے ہفتے ختم ہونے والی ہے لیکن مرکز نے انہیں تین ماہ کی توسیع دی ہے جسے دیکھتے ہوئے یہ قیاس آرائیاں کی جانے لگی ہیں کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کچھ دوسری پارٹیوں کے ممبران اسمبلی کی حمایت سے نئی مخلوط سرکارتشکیل دینے کی کوشش کرسکتی ہے جیسا کہ اس پارٹی نے دیگر ریاستوں میں کرکے دکھایا ہے۔ان قیاس آرائیوں کوسابق نائب وزیراعلیٰ کویندرگپتااوربی جے پی کے قومی ترجمان سمت پاتراکے اُن بیانات سے تقویت ملی ہے کہ جن میں ا ن دونوں بھاجپالیڈران نے آنے والے دنوں میں ایک ”نئی سیاسی صورتحال“ پیداہونے کااشارہ دیاہے۔

قیاس آرائیوں کوسابق نائب وزیراعلیٰ کویندرگپتااوربی جے پی کے قومی ترجمان سمت پاتراکے اُن بیانات سے تقویت ملی ہے کہ جن میں ا ن دونوں بھاجپالیڈران نے آنے والے دنوں میں ایک ”نئی سیاسی صورتحال“ پیداہونے کااشارہ دیاہے۔

سیاسی افراتفری اور بھاجپا لیڈروں کے بیانات کے تناظرمیں سابق وزیراعلیٰ اورنیشنل کانفرنس کے نائب صدرعمرعبداللہ نے یوں ٹویٹ کیا”کسی مشن پرکام کرنے کاکیامطلب ہے؟“۔سابق وزیراعلیٰ نے خودہی اس سوال کاکچھ یوں جواب دیاکہ کچھ اورمطلب یہ ہوسکتاہے کہ سرکاربنانے کیلئے بھاجپادوسری سیاسی جماعتوں کوتوڑکردرکارممبران اسمبلی کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔واضح رہے کہ کویندر گپتا نے کہا ہے کہ پارٹی کسی نئے مشن پر کام کررہی ہے اور ریاست میں نئی سیاسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

ریاست کی 87رکنی اسمبلی میں پی ڈی پی28سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی ہے جسکے بعد بی جے پی کے25نیشنل کانفرنس کے15اور کانگریس کے 12ممبران ہیں۔چناچہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی دشمنی کی حد تک ایک دوسری کی مخالف ہیں اور انکے بیچ کا کوئی اتحاد ناممکن لگتا ہے ۔موجودہ حالات میں نیشنل کانفرنس کا بھاجپا کے ساتھ اتحاد بھی اتنا ہی ناممکن معلوم ہوتا ہے تاہم بتایا جاتا ہے کہ بھاجپا کی جانب سے پی ڈی پی،نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے کئی ممبران کو للچانے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔

Exit mobile version