سرینگر// وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے حالیہ دورہ کشمیر کے دوران انکی جانب سے توقعات کے برعکس کوئی اہم سیاسی اعلان نہ کئے جانے سے مایوس سرکردہ کانگریس لیڈراور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا ہے”راج ناتھ سنگھ جی نے بھی کشمیر میں آکر کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے یہ اندازہ ہو کہ اُن کو کشمیر کے لوگوں ،خصوصاً یہاں کے نوجوانوں، کے ساتھ کوئی درد مندی ہے“۔انہوں نے تاہم خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” آج نہیں تو کل مرکزی سرکار کو کشمیر کی بے چینی کو سمجھ کر اس کا ازالہ کرنے کےلئے ایک بامقصد بات چیت کےلئے دروازہ کھولنا پڑے گا“۔
ایجنسیوں کا یہ بھی پختہ خیال ہے کہ گولی باری کے ذریعے کشمیر میں امن کو بحال کیا جا سکتا ہے اور فی الحال وہ مذاکرات کار دنیشور شرماءکے ذریعے کچھ رابطہ تو قائم کر ہی سکتے ہیں!۔مگر مجھے یقین ہے کہ مرکزی سرکار کو ایک نہ ایک دن کشمیر میں ایک فیصلہ کن بات چیت کےلئے تیار ہونا پڑے گا
پروفیسر سوز نے ایک بیان میں کہا ہے”وزیر اعظم مودی کی طرح وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ جی نے بھی کشمیر میں آکر کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے یہ اندازہ ہو کہ اُن کو کشمیر کے لوگوں خصوصاً یہاں کے نوجوانوں کے ساتھ کوئی درد مندی ہے اور وہ یہاں کے لوگوں کی پریشانی خصوصاً نوجوانوں کے ذہن میں موجود بے چینی کو پہنچانتے ہیں“۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے گذشتہ ماہ ریاست کا دورہ کیا تھا تاہم انہوں نے اس دوران ”ترقی“کی بات کی اور مسئلہ کشمیر کو لیکر کوئی بڑی بات کرنے سے احتراز کیا اور اب کل وزیر داخلہ ریاست کا دو روزہ دورہ کرکے گئے تاہم انہوں نے بھی کوئی ”بڑی بات“نہیں کی جیسا کہ توقع کی جارہی تھی۔اندازہ لگایا جارہا تھا کہ وزیر داخلہ حریت کانفرنس کو کسی شرط کے بغیر سیدھے سیدھے بات چیت کیئے بلائیں گے تاہم انہوں نے کھیل سرگرمیوں کو فروغ دئے جانے کی ضرورت پر زور دیا جبکہ ”مذاکرات“کے حوالے سے انہوں پھر شرائط کے ساتھ اور اشارتاََ بات کی۔
وزیر داخلہ کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر سوز نے کہا ہے”راج ناتھ سنگھ آئے اور یہاں سرکاری تقاریب میں انہوں نے گفتگو بھی کی اور جو کچھ سرکاری محل و قوع میں کہناچاہئے تھا وہ کہہ دیا ۔اُن کی تقاریر سے ریاستی مخلوط سرکار میں شامل لوگ تھوڑی دیر کےلئے ایساتاثردینے لگے ہیں کہ جیسے راج ناتھ سنگھ جی نے کوئی ایسی با ت کہی ہوکہ جس سے کشمیر میں ایک بامقصد اور فیصلہ کن بات چیت کا دروازہ کھل سکتا ہے۔اگر کوئی ایسی بات ہے جس پر مزاحمتی قیادت مطمئن ہو سکے تو بامقصد مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں“ ۔ سوز نے مزید کہا ہے”میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج نہیں تو کل مرکزی سرکار کو کشمیر کی بے چینی کو سمجھ کر اس کا ازالہ کرنے کےلئے ایک بامقصد بات چیت کےلئے دروازہ کھولنا پڑے گا“۔پروفیسر سیف الدین سوز نے کہاہے”(خفیہ) ایجنسیوں کا حسب دستور یہی خیال ہے کہ آج نہیں تو کل کشمیر میں مزاحمتی تحریک فورسز کی کارکردگی سے ختم ہو گی اور وہ حسب دستور اپنی مد د سے معمول کے مطابق زندگی رواں دواں کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ایجنسیوں کا یہ بھی پختہ خیال ہے کہ گولی باری کے ذریعے کشمیر میں امن کو بحال کیا جا سکتا ہے اور فی الحال وہ مذاکرات کار دنیشور شرماءکے ذریعے کچھ رابطہ تو قائم کر ہی سکتے ہیں!۔مگر مجھے یقین ہے کہ مرکزی سرکار کو ایک نہ ایک دن کشمیر میں ایک فیصلہ کن بات چیت کےلئے تیار ہونا پڑے گا بلکہ پاکستان کے ساتھ بھی ایک بامقصد بات چیت کےلئے کمر بستہ ہونا پڑے گا“۔