کیرالہ کے بعد ہماچل میں نیپاہ وائرس کی دستک

سرینگر//کیرالہ کے بعد اب ہماچل پردیش میں مہلک ”نیپاہ وائرس “کی علامات پائے جانے کے بعد وہاں الرٹ جاری کردیا گیا ہے اور محکمہ صحت نے کسی بھی صورتحال سے نپٹنے کیلئے ہنگامی اقدامات شروع کئے ہیں تاہم جموں کشمیر میں ابھی تک لوگوں کو جانکاری تک نہیں دی جارہی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ ہماچل میں اس مہلک وائرس کی علامات پائی گئی ہیں جن سے وہاں تشویش پھیل گئی ہے اور سرکار نے الرٹ جاری کردیا ہے۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ ہماچل کی سرکار نے اپنے محکمہ صحت کو متحرک کرکے ڈاکٹروں کو اس وائرس کے خطرے سے نپٹنے کے لئے تیار حالت میں رہنے کی ہدایت دی ہے۔

”میں نے کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر اس وائرس کے بارے میں سُنا لیکن سچ پوچھیئے تو کئی وضاحت نہیں ہے۔میں نے اتنی احتیاط ضرور کی ہے کہ گھر میں ہر قسم کا میوہ لانا بند کرادیا ہے یہاں تک کہ ہم کھجوروں کی بجائے سادہ پانی سے روزہ کھولتے ہیں“۔

ہماچل جموں کشمیر کی پڑوسی ریاست ہے اور وہاں کسی وائرس کے پھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ جموں کشمیر کے اس سے محفوظ رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہو سکتی ہے۔تاہم حیرانگی کی بات ہے کہ جموں کشمیر میں ابھی تک اس وائرس کے بارے میں سرکاری طور کوئی جانکاری بھی نہیں دی جا رہی ہے۔حالانکہ ہیلتھ و فیملی ویلفیئر کی مرکزی وزارت نے اس وائرس کے حوالے سے عوام الناس اور شعبہ صحت کے اہلکاروں کے نام پہلے ہی ایک ایڈوائزری جاری کردی ہے۔ سرینگر کی ایک گھریلو خاتون نے بتایا”میں نے کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر اس وائرس کے بارے میں سُنا لیکن سچ پوچھیئے تو کئی وضاحت نہیں ہے۔میں نے اتنی احتیاط ضرور کی ہے کہ گھر میں ہر قسم کا میوہ لانا بند کرادیا ہے یہاں تک کہ ہم کھجوروں کی بجائے سادہ پانی سے روزہ کھولتے ہیں“۔انہوں نے کہا کہ سرکار کو نہ صرف جانکاری دینی چاہیئے بلکہ ضروری انتظامات بھی کرنے چاہیئے۔دیگر کئی لوگوں نے بھی کہا کہ انہیں فقط سوشل میڈیا کے ذرئعہ تھوڑی سی معلومات ملی ہیں جو مگر ناکافی ہیں۔چناچہ تعلیم سے انجینئر ایک نوجوان کا کہنا تھا”تھوڑی جانکاری ہونے کے نتیجہ میں یا تو لوگوں میں غیر ضروری خوف پھیل جاتا ہے یا پھر لوگ باالکل ہی لاپرواہی بھرتتے ہیں یہاں تک کہ نقصان ہوجاتا ہے،سرکار کو کم از کم واضھ ایڈوائزری جاری کرنی چاہیئے تھی اور ان تمام چیزوں کی درآمد روک دینی چاہیئے تھی کہ جن سے یہ مہلک وائرس پھیلنے کا احتمال ہو سکتا ہے“۔

نیپاہ وائرس جنوبی ریاست کیرالہ میں سر اٹھا چکا ہے اور ابھی تک اسکی وجہ سے زائد از ایک درجن افراد لقمہ¿ اجل بن چکے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک نیا اور انتہائی مہلک وائرس ہے کہ جسکا ابھی تک کوئی علاج دستیاب نہیں ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور پھر جانوروں سے انسانوں میں اور انسانوں کے مابین منتقل ہوتا رہتا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ نیپاہ کا شکار ہونے والے مریضوں کو ایک خاص قسم کا دماغی بخار لاحق ہوجاتا ہے جو چند ہی دنوں میں انکی موت کا سبب بن سکتا ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ نیپاہ کے متاثرین میں سے کم از کم ستر فیصد لاعلاج ہوکر موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں جبکہ فقط تیس فیصد مریضوں کے جانبر ہونے کا امکان رہتا ہے۔

Exit mobile version