بپن راوت سے انعام پا چکے میجر لیتُل گگوئی نابالغ لڑکی کے ساتھ پکڑے گئے

سرینگر// سال بھر قبل ایک کشمیری نوجوان کو فوجی جیپ کے بونٹ پر رسیوں سے باندھے انسانی ڈھال کے بطور گاو¿ں گاو¿ں گھماکرپوری دنیا میں اپنی تنقید کراچکے میجر لیتُل گگوئی نامی فوجی افسر کو آن سرینگر کے ایک ہوٹل میں ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ پکڑا گیا۔جموں کشمیر پولس نے اس واقعہ کو لیکر معاملہ درج کرکے ”تحقیقات“شروع کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ میجر کو بڈگام میں واقع اپنی یونٹ کے حوالے کیا گیا ہے جہاں وہ کئی سال سے تعینات ہیں۔

یہ واقعہ دوپہر کے قریب پیش آیا ہے۔پولس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ میجر گگوئی نے کہنہ کھن ڈلگیٹ میں واقع ہوٹل گرینڈ ممتا میں آن لائن ایک رات کیلئے کمرہ بُک کیا تھا اور بتایا تھا کہ وہ دو افراد یہاں رات کو قیام کرینگے۔چناچہ آج جب میجر گگوئی ایک نابالغ لڑکی اور ایک کشمیری نوجوان کے ساتھ ہوٹل پہنچے تو انکی ہوٹک کے استقبالیہ پر موجود اسٹاف کے ساتھ کسی بات پر تو تو میں میں ہوئی۔بعض ذرائع کے مطابق ہوٹل اسٹاف کی جانب سے گگوئی کو ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ کمرے میں جانے کی اجازت نہ دئے جانے پر جھگڑا شروع ہوا اور پھر جب گگوئی ہوٹل سے باہر آئے وہ یہاں ایک ڈرائیور کے ساتھ لڑ پڑے۔شورشرابا سن کر آس پروس کے لوگ جمع ہوگئے اور جب انہیں میجر کے ساتھ ایک نا بالغ لڑکی کو موجودگی پر شک ہوا تو انہوں نے پولس کو بلا لیا جس نے گگوئی اور اور انکے ساتھ آئی لڑکی اور لڑکے کو گرفتار کر لیا۔پولس کا کہنا ہے کہ اسے بعد میں معلوم ہوا کہ جنہیں گرفتار کیا گیا ہے وہ در اصل فوج کی 53آر آر کے میجر لیتُل گگوئی ہیں۔

انہوں نے تاہم گگوئی کے بچاو¿ کا راستہ کھلا چھوڑتے ہوئے،عام لوگوں کے بیان کے برعکس،پکڑی جانے والی لڑکی کو بالغ بتایا ہے۔

میجر لیتُل گگوئی وہی فوجی افسر ہیں کہ جنہوں نے گذشتہ سال 9اپریل کو سرینگر-بڈگام پارلیمانی نشست کیلئے ووٹ ڈالے جانے کے دن فاروق احمد ڈار نامی ایک نوجوان ووٹر کو پکڑ کر اپنی جیپ کے بونٹ پر رسیوں سے باندھ دیا تھا اور پھر احتجاجی مظاہرین کے سامنے انسانی ڈھال کے بطور مذکورہ کو دن بھر گاو¿ں گاو¿ں گھمایا تھا۔اس واقعہ کا ویڈیو وائرل ہونے پر کشمیر سے دور دنیا تک عام لوگوں اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں نے اسکی تنقید کرنے کے علاوہ اس پر احتجاج کیا تھا تاہم غیر کشمیری ٹیلی ویژن چینلوں کی جانب سے گگوئی کو ”ہیرو“کے بطور پیش کئے جانے کے بعد فوجی چیف جنرل بپن راوت نے گگوئی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے انہیں اعزاز سے نواز اتھا اور ”ایک نئی روایت“قائم کرکے سب کو حیران کردیا تھا۔

جموں کشمیر پولس (کشمیر زون)کے انسپکٹر جنرل ایس پی پانی نے اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔انہوں نے تاہم گگوئی کے بچاو¿ کا راستہ کھلا چھوڑتے ہوئے،عام لوگوں کے بیان کے برعکس،پکڑی جانے والی لڑکی کو بالغ بتایا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کیس کو”میرٹ “کی بنیادپرلیکراسکی تحقیقات شروع کی گئی ہے ،اورمذکورہ فوجی افسرکے یونٹ کیساتھ بھی رابط کیاگیاہے۔ایس پی پانی نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ آیا گگوئی اور انکے ساتھ پکڑی گئی لڑکی کوباضابطہ گرفتار کیا گیا ہے یا پھر انہیں چھوڑ دیا گیا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ میجر گگوئی کو جانے دیا گیا ہے اور وہ اپنی یونٹ میں واپس آگئے ہیں جہاں سے دوران ڈیوٹی غائب ہوکر وہ ظاہری طور رنگ رلیاں منانے کیلئے سرینگر کے ایک ہوٹل میں آگئے تھے۔

اس واقعہ کی خبر وادی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ہے اور لوگوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے زبردست بحث چھڑ گئی ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر فاروق احمد ڈار کے ساتھ انتہائی ظالمانہ رویہ کرتے وقت ہی میجر گگوئی کو ہیرو کے بطور پیش کئے جانے کی بجائے انہیں قرار واقعی سزا دی گئی ہوتی تو وہ فوجی نظم و ضبط توڑ کر اس طرح کی بے شرمی کرنے کی جرا¿ت تک نہیں کرتے۔لوگوں کی جانب سے گگوئی کے خلاف تحقیقات کئے جانے پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور پوچھا جارہا ہے کہ ایک عام شہری کو جیپ پر باندھ کر انسانی ڈھال بنائے جانے کے واقعہ کی”تحقیقات“ کا کونسا نتیجہ نکلا ہے کہ ابھی اعلان کردہ ”تحقیقات“پر کوئی بھروسہ کیا جاسکے۔البتہ ایک مقامی انگریزی روزنامہ نے ایک نامعلوم فوجی افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعہ کیلئے میجر گگوئی کے خلاف کارروائی تقریباََ طے ہے کیونکہ انہوں نے ڈیوٹی سے غیر قانونی طور غائب ہوکر اس طرح کی حرکت کی ہے۔

Exit mobile version