سرینگر// وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی سرکار کی جانب سے حال ہی اعلان کردہ رمضان سیز فائر کو ”گمراہ نوجوانوں کیلئے ایک موقع“قرار دیتے ہوئے انہیں اپنے والدین کے پاس لوٹ آنے کیلئے کہا ۔جموں کشمیر کے دورہ کے دوران یہاں جھیل ڈؒ کے کنارے واقعہ کنونشن سنٹر میں کئی ترقیاتی منصوبوں کا رسمی افتتاح اور کئی منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھے جانے کی تقریب پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”جموں وکشمیر سے جڑے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف ترقی ،ترقی اور ترقی ہے‘ ‘۔
وزیر اعظم نے خاصی لمبی تقریر کی تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق اس میں توقع کے برعکس کچھ نیا نہیں تھا اور نہ ہی ایسا کوئی اشارہ ہی ملا کہ حکومت ہند موجودہ حالات میں جموں کشمیر کے مسئلے کو روایتی سوچ سے ہٹ کر دیکھنے پر آمادہ ہے۔مودی نے کہا کہ جموں وکشمیر میں تمام تر وسائل موجود ہیں ،جنکی بدولت اس ریاست کو ”نیو انڈیا “ کی مانند’ ’نیو جموں وکشمیر‘ ‘ بنا یا جاسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر نیوانڈیا کا چمکتا ستارہ بن سکتا ہے ،کیو نکہ یہاں کے قدرتی وسائل میں کوئی کمی نہیں آئی ۔کشمیر میں رمضان سیز فائر کا ذکر کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ یہ فیصلہ کشمیری عوام خاص طو رپر نوجوانوں کو راحت پہنچا نے کےلئے کیا گیا ۔انہوں نے کشمیری نوجوانوں کو تشدد کا راستہ ترک کرنے کا مشورہ دےتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔ انہوں نے کہا”میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کرکے مین اسٹریم میں آجائیں، ان کی مین اسٹریم ان کے والدین ہیں،آپ کا اپنا خاندان اور جموں وکشمیر کی ترقی ہے“۔ان کا کہناتھا کہ پتھر اور ہتھیار اٹھانے والے ہاتھ اپنے ہی وطن جموں وکشمیر کو لہو لہان کررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کو تشدد اور خون خرابے کی دلدل سے باہر نکالنے کا وقت آگیا ہے ،لیکن اسکے لئے سب کا تعاﺅن ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کی نیت ،نیتی دونوں صاف ہے جبکہ مرکزی حکومت فیصلہ لینے کی سکت بھی رکھتی ہے ۔ان کا کہناتھا کہ رمضان سیز فائر اُسکی کی ایک کڑی تھی ۔انہوں نے کہا کہ رمضان سیز فائر کا اعلان کشمیری عوام خاص طور پر نوجوانوں کو راحت پہنچانے کےلئے کیا گیا ۔وزیر اعظم ہند نے کہا کہ ”کشمیری نوجوان ملک کے دیگر نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہوسکتے ہیں“۔ انہوں نے کہا”ملک کے نوجوان اس وقت نئے بھارت کی تعمیر میں شامل ہوگئے ہیں۔ جموں و کشمیرکے نوجوان بھی اس میں شامل ہوجائیں۔ ریاست کے نوجوان نئے بھارت میں تارے کی طرح چمکیں گے“۔
مبصرین کا خیال تھا کہ وزیر اعظم مودی وادی کشمیر میں بڑھتی ہوئی ملی ٹینسی اور حالیہ ایام میں سرکاری فورسز کے ہاتھوں کئی جنگجووں اور عام شہریوں کے مارے جانے کو دیکھتے ہوئے صلح جوئی کی کوئی خاص اور بڑی بات کہیں گے تاہم انکی پوری تقریر روایتی تھی جس میں ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کو ”تعمیروترقی اور روزگار“کا مسئلہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔
علیٰحدگی پسندوں کا نام لئے بغیر وزیر اعظم مودی نے کہاکہ مرکز نے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا ہے ۔انہوں نے کہا” ہم نے کشمیر کےلئے مذاکرات کار (دنیشور شرما)نامزد کیا ہے ،جو کوئی بھی اُن سے بات کر نا چاہتا ہے ،کرے ،اپنی بات اُنکے سامنے رکھے‘ ‘۔وزیر اعظم ہندنے کہا’ ’ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کشمیریت کے قائل تھے ،مودی بھی کشمیریت کا مرید ہے‘ ‘۔ان کا کہناتھا کہ کشمیریت اور جمہوریت کے گٹھ جوڑ کو مضبوط بنانے کےلئے عوامی تعاﺅن ضروری ہے ۔
وزیر اعظم آج صبح لیہہ پہنچے تھے جہاں انہوں نے کشک بکولہ کی صد سالہ سالگرہ کی اختتامی تقریب میں شرکت کی اور اسی دوران وادی¿ کشمیر اور لداخ کو سال بھر ملائے رکھنے کیلئے 14کلومیٹر طویل ٹنل کے کام کا رسمی آغاذ کرنے کیلئے ایک تختی کی نقاب کشائی کی۔سرینگر میں انہوں نے شمالی ضلع بانڈی پورہ میں بننے والے 330 میگاواٹ کی صلاحیت والے کشن گنگا پن بجلی پروجیکٹ کا رسمی افتتاح کیا اور 939 کروڑ کی لاگت سے تعمیر ہونے والے سری نگر رنگ روڑ پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اعظم جموں میں قیام کے دوران ضلع ریاسی میں واقع ”ماتا ویشنو دیوی مندر‘ ‘کو جانے والے 7 کلو میٹر طویل متبادل راستے کو یاتریوں کے لئے کھول دیں گے۔ وہ ایک ہزار میگاواٹ کی صلاحیت والے پکل ڈل پن بجلی پروجیکٹ اور جموں رنگ روڑ پروجیکٹ کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے اور شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچر سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (سکاسٹ) جموں کے چھٹے جلسہ تقسیم اسناد سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کریں گے۔ وزیر اعظم ریاست کا یہ دورہ مرکزی حکومت کے وادی کشمیر میں ماہ رمضان کے دوران سیکورٹی فورسز کے آپریشنز معطل رکھنے کے ایک غیرمعمولی اعلان کے محض تین روز بھی کررہے ہیں۔ آپریشنز کی معطلی جسے ’یکطرفہ فائر بندی کا نام بھی دیا جارہا ہے‘ کو وادی میں قیام امن کی سمت میں ایک غیرمعمولی قدم سمجھا جارہا ہے۔ اس اقدام کو دیکھتے ہوئے مبصرین کا خیال تھا کہ وزیر اعظم مودی وادی کشمیر میں بڑھتی ہوئی ملی ٹینسی اور حالیہ ایام میں سرکاری فورسز کے ہاتھوں کئی جنگجووں اور عام شہریوں کے مارے جانے کو دیکھتے ہوئے صلح جوئی کی کوئی خاص اور بڑی بات کہیں گے تاہم انکی پوری تقریر روایتی تھی جس میں ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کو ”تعمیروترقی اور روزگار“کا مسئلہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔