سرینگر // مسلح جنگجووں نے آج وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے آبائی قصبہ بجبہاڑہ میں ایک اچانک حملے میں پولس کے ایک اہلکار کو ہلاک اور ایک کو شدید زخمی کردیا ہے جو ابھی اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔یہ واقعہ سہ پہر کو تب پیش آیا کہ جب پولس کی ایک گاڑی قصبہ کے پادشاہی باغ علاقہ سے جا رہی تھی کہ گھات میں بیٹھے جنگجووں نے حملہ بولدیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جدید ہتھیاروں سے لیس جنگجووں نے کئی منٹوں تک شدید فائرنگ کی جس سے بلال احمد نامی اسپیشل پولس آفیشل(ایس پی او)اور کانسٹیبل عبدالرشید شدید زخمی ہوگئے جنہیں فوری طور قصبہ کے سب ضلع اسپتال پہنچایا گیا۔اسپتال ذرائع نے بتایا کہ ایس پی او بلال اسپتال پہنچائے جانے پر مردہ پائے گئے جبکہ عبدالرشید کو بہتر علاج و معالجہ کیلئے سرینگر منتقل کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ جنگجو مخالف آپریشنوں کیلئے جموں کشمیر پولس نے ہزاروں جوانوں کو ایس پی اوز کے بطور تعینات کیا ہے جنہیں کئی سال کے بعد کانسٹیبل بنایا جاتا ہے۔
جس مقام پر یہ حملہ ہوا ہے وہ سکیورٹی کے اعتبار سے انتہائی حساس ہے اور یہاں سابق وزیر اعلیٰ مفتی سعید کی قبر پر ہمہ وقت پولس کا پہرہ لگا رہتا ہے۔
جنوبی کشمیر میں گوکہ دو ایک سال سے جنگجوئیانہ سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے تاہم وزیر اعلیٰ کے آبائی قصبہ بجبہاڑہ میں ایک عرصہ کے بعد جنگجووں نے دن دہاڑے پولس پارٹی پر اس طرح کا حملہ کیا ہے۔واضح رہے کہ جس مقام پر یہ حملہ ہوا ہے وہ سکیورٹی کے اعتبار سے انتہائی حساس ہے اور یہاں سابق وزیر اعلیٰ مفتی سعید کی قبر پر ہمہ وقت پولس کا پہرہ لگا رہتا ہے۔سرکاری ذرائع نے حملہ آوروں کے فرار ہونے کی تصدیق کی ہے تاہم دعویٰ کیا گیا کہ انکی تلاش جاری ہے۔جموں کشمیرپولس(کشمیر زون)کے آفیشل ٹویٹر اکاونٹ پر کہا گیا’ ’بجبہاڑہ میں جنگجووں کی طرف سے پولیس گاڑی پر فائرنگ کی گئی،پولیس نے جوابی فائرنگ کی۔ فائرنگ کے دوران زخمی ہونے والا ایک پولیس اہلکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ علاقہ کو محاصرے میں لیا گیا ہے“۔
آخری اطلاعات ملنے تک کسی بھی مسلح تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی تاہم پولس کا ماننا ہے کہ اسکے پیچھے حزب المجاہدین یا لشکر طیبہ کے جنگجووں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔یہ بات دلچسپ ہے کہ جنوبی کشمیر میں حزب المجاہدین کے ساتھ ساتھ لشکر طیبہ اور اب کچھ عرصہ سے جیش محمد کے جنگجو بھی کافی سرگرم ہو چکے ہیں۔ حالانکہ حالیہ ایام میں سرکاری فورسز نے کئی اعلیٰ کمانڈروں کے سمیت سینکڑوں جنگجووں کو مار گرایا ہے تاہم مقامی نوجوانوں کے جنگجوئیت کی جانب مائل ہونے کے رجحان میں کسی قسم کی کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے اور کئی ساتھیوں کو کھو دینے کے باوجود بھی جنگجووں پر کوئی رعب طاری ہوتے محسوس نہیں ہو رہا ہے۔