سرینگر // کشمیر یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سمیت حزب المجاہدین کے آٹھ نامی جنگجووں اور چھ عام شہریوں کے سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کے خلاف تین روزہ عام ہڑتال کے بعد بدھ کو جنوبی کشمیر کو چھوڑ کر بقیہ وادی میں حالات معمول پر آگئے ہیں۔سرینگر کے ان علاقوں میں بھی حالات معمول پر آگئے ہیں کہ جہاں احتجاجی مظاہروں کے خدشات کے پیش نظر سرکاری انتظامیہ نے کرفیو جیسی پابندی نافذ کردی تھی جبکہ سُست رفتار کے ساتھ انٹرنیٹ کی خدمات بھی بحال کردی گئی ہیں۔
سرینگر اور جنوبی کشمیر کے شوپیاں میں دو الگ الگ واقعات کے دوران حزب المجاہدین کے نامور کمانڈر صدام پڈر،شوکت ٹاک اور کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر کی نوکری چھوڑ کر جنگجو بن چکے ڈاکٹر رفی بٹ سمیت آٹھ جنگجو جاں بحق ہوچکے تھے جبکہ ان واقعات پر احتجاج کے دوران کم از کم چھ عام شہری بھی مارے گئے تھے اور درجنوں دیگر زخمی ہو گئے تھے۔چناچہ ان واقعات کے خلاف علیٰحدگی پسند قیادت کے کہنے پر وادی میں اتوار سے منگل تک مسلسل تین دنوں تک ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کے دوران انتظامیہ نے جہاں سری نگر کے سات پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کر رکھیں، وہیں مختلف خدمات بشمول ریل و موبائیل انٹرنیٹ کو بند رکھا۔ تاہم کشمیر علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کی جانب سے عوام کو 9مئی سے معمول کے کام پر لوٹنے کیلئے کہنےکے ساتھ ہی بدھ کی صبح جنوبی کشمیر کو چھوڑ کر وادی کے بیشتر حصوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز کھل گئے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت بحال ہوئی۔ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج بھی بحال ہوا۔
صدام کے ساتھ مارے جانے والے جنگجووں میں محض دو روز قبل حزب المجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے والے کشمیر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیع بٹ بھی شامل تھے۔
وادی میں اگرچہ دسویں جماعت تک کے تعلیمی ادارے کھل گئے تاہم بیشتر اعلیٰ تعلیمی ادارے ،بشمول ہائی سکینڈری اسکول اور کالج انتظامیہ کے احکامات پر، مسلسل تیسرے دن بھی بند رہے۔سرکاری انتظامیہ کو ان اداروں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہونے کا خدشہ تھا جسکے پیش نظر ان اداروں کو مسلسل بند رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اتوار کے روز سرینگر کے نورباغ علاقہ میں تین جنگجووں اور ایک عام شہری کے مارے جانے کے بعد یہاں حالات خراب ہو گئے تھے جبکہ اس واقعہ کے بعد ہی جنوبی کشمیر کے شوپیاں میں 6 مئی کو5 جنگجووں اور 6 احتجاجیوں کے مارے جانے کے خلاف زبردست پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔جنوبی کشمیر کے تین اضلاع، پلوامہ، کولگام اور شوپیان، میں بدھ کو مسلسل چوتھے روز بھی مکمل ہڑتال رہی۔ ان تین اضلاع میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج جزوی طور پر متاثر رہا۔ جنوبی کشمیر کے بیشتر حصوں میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات بدستور معطل رکھی گئی ہیں، تاہم باقی حصوں میں بحال کی گئیں۔ ادھر سری نگر کے سات پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں گذشتہ تین دنوں سے عائد پابندیاں بدھ کی صبح ہٹالی گئیں۔ پابندیاں ہٹائے جانے کے ساتھ ہی پائین شہر میں معمول کی زندگی پٹری پر آگئی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ وادی کے کسی بھی حصے میں بدھ کے روز پابندیاں نافذ نہیں رہیں، تاہم جنوبی کشمیر میں کچھ حساس مقامات پر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کر رکھی گئی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ ابھی احتیاط کے ساتھ سُست رفتار کے ساتھ انٹرنیٹ کی سروس بحال کردی گئی ہے جبکہ شمالی کشمیر میں بارہمولہ سے چل کر جنوبی کشمیر میں بانہال تک جانے والی ریل سروس کو بھی بحال کر دیا گیا ہے۔دلچسپ ہے کہ وادی کے حالات میں تغیر و تبدیل کے ساتھ سرکاری انتظامیہ سب سے پہلے انٹرنیٹ اور ریل سروس کو بند کرنے کا حکم صادر کرتی آرہی ہے۔
سرینگر میں ہونے والی جھڑپ میں نامور جنگجو کمانڈر شوکت ٹاک مارے گئے تھے جو گذشتہ آٹھ سال سے سرگرم رہتے ہوئے سرکاری ایجنسیوں کیلئے درد سر بنے ہوئے تھے جبکہ شوپیاں میں حزب المجاہدین کے اعلیٰ کمانڈر صدام پڈر اور کشمیر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیع بٹ سمیت پانچ جنگجو مارے گئے تھے۔شوپیان کے ہیف نامی گاوں کے رہنے والے 26 سالہ صدام پڈر نے سنہ 2015 میں حزب المجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ معروف حزب کمانڈر برہان مظفر وانی کے قریبی ساتھی اور انکے قریبی ساتھیوں میں سے آخری تھے۔تھا۔ بتایا جارہا ہے کہ صدام کے مارے جانے کے ساتھ برہان وانی گروپ کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے۔ دلچسپ ہے کہ صدام کے ساتھ مارے جانے والے جنگجووں میں محض دو روز قبل حزب المجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے والے کشمیر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیع بٹ بھی شامل تھے۔ سماجیات میں جونیئر ریسرچ فلو شپ (جے آر ایف)رکھنے والے ڈاکٹر محمد رفیع وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل کے چندہامہ کے رہنے والے تھے اور دو روز قبل یونیورسٹی میں اپنی قیام گاہ سے لاپتہ بتائے گئے تھے۔