اسکولوں کو بند کرنے کی دھمکی کے بعد کوچنگ سنٹروں پر پابندی!

سرینگر// اسوقت کہ جب وادی کشمیر میں کٹھوعہ عصمت دری واقعہ کے خلاف طلباءکے احتجاج کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے ریاستی سرکار نے اپنی نوعیت کے ایک سخت فیصلے میں تین مہینوں کیلئے سبھی کوچنگ سنٹروں کو بند کرنے کا حکم صادر کردیا ہے۔پرائیویٹ کوچنگ کو تین مہینوں کیلئے ممنوع قرار دینے کا اعلان خود وزیر تعلیم الطاف بخاری نے کیا ہے جنہوں نے گذشتہ روز سخت بیان دیتے ہوئے طلبہ کو سڑکوں سے اٹھ کر کلاسز کو لوٹنے کیلئے کہا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو وہ دائمی طور اسکولوں کو بند کردینگے۔

یہاں ہائر اسکینڈری اسکلوں کے پرنسپل،چیف اور زونل ایجوکیشنل افسروں و دیگر حکام کے ساتھ ایک طویل میٹنگ کے بعد باہر آںے پر الطاف بخاری نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ انہوں نے فی الحال نوے دنوں کیلئے کوچنگ سنٹروں کو بند کردینے کا فیصلہ لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ کوچنگ سنٹر طلباءکیلئے کوئی سہولت نہیں بلکہ ایک Distractionہے جسے ختم کرکے وہ طلباءکی توجہ تعلیم پر رکھوانا چاہتے ہیں۔یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے کہ جب وادی میں کٹھوعہ میں ایک آٹھ سلہ معصوم بچی کے ساتھ ہوئے ظلم کے خلاف وادی میں طلباءکی احتجاجی تحریک جاری ہے۔حالیہ دنوں میں پولس اور طلبا کے بیچ کئی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں جبکہ سرکاری انتظامیہ نے کئی بار اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیز کو بند کردیا ہے۔وزیر تعلیم نے گذشتہ روز ایک سخت بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب بہت ہوگیا اور طلباءکو فوری طور کلاس رومز کو لوٹنا چاہیئے۔انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ مزید احتجاجی مظاہرے کرنے والے طلباءکو ”Rowdies“تصور کیا جائے گا اور اگ تعلیمی اداروں کو صحیح ڈھنگ سے چلنے نہیں دیا گیا تو وہ انہیں دائمی طور بند کراسکتے ہیں۔

”اگر محض ایک بھی طالب علم کوچنگ سنٹر یا کسی کلاس روم میں جانےکے خواہاں ہوں تو یہ اسکا حق ہے جس سے انہیں محروم نہیں رکھا جاسکتا ہے۔طلبائ،والدین اور جملہ سماج سے تعاون طلب کرکے تعلیمی اداروں کو بلاروک چلانے کی کوششوں کی بجائے سرکار نے ایک آمرانہ حکم جاری کیا ہے جس پر عمل ہونے کی صورت میں کشمیری بچوں کے مستقبل پر انتہائی مضر اثرات دیکھے جاسکتے ہیں“۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ میٹنگ میں طلباءکو احتجاجی مظاہروں سے دور رکھنے کیلئے کئی اقدامات کے بارے سوچا گیا اور محسوس کیا گیا کہ اسکولوں اور دیگر اداروں کو بند کئے جانے کے باوجود جب کوچنگ سنٹر کھلے رہتے ہیں تو بچوں کو جمع ہونے کا موقعہ ملتا ہے جسکے بعد وہ احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ان ذرائع کے مطابق وزیر تعلیم نے متعلقہ حکام کو یہ بھی ہدایات دی ہیں کہ ان سبھی اساتذہ کی فہرست سرکار کو بھیجی جانی چاہیئے کہ جو سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ کوچنگ سنٹروں میں پڑھاتے بھی ہیں۔

کانگریس اور عوامی اتحاد پارٹی نے سرکاری فیصلے کو حیران کن اور ناکامی کا اعتراف بتاتے ہوئے اسے کشمیری بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلیلنے کے جیسا کہا۔ان پارٹیوں نے کہا کہ یہ فیصؒہ بلاجواز ہے اور اسے فوری طور واپس لیا جانا چاہیئے۔کانگریس کے ایک ترجمان نے کہا کہ اس فیصؒے سے عام اور مابقاتی امتحانات کی تیاری میں بچوں کو شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہانجینئر رشید نے ایک بیان میں کہا کہ ریاستی سرکار کشمیری طلباءسے کٹھوعہ معاملے پر احتجاج کرنے کا بدلہ لے رہی ہے۔ایک بیان میں انہوں نے کہا یہ بات حیران کن ہے کہ ایک طرف وزیر تعلیم طلباءسے کلاس رومز کو لوٹنے کی اپیل کرتے ہیں اور دوسری جانب کوچنگ سنٹروں کو،جہاں طلباءاپنی قابلیت اور اہلیت میں اضافہ کرسکتے ہیں، بند کرنے کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر تعلیم کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ جموں،کشمیر اور لداخ ایک ریاست ہے اور کسی بھی مسابقاتی امتحان میں پوری ریاست کا ایک میرٹ لسٹ بنتا ہے لہٰذا کشمیریوں کو کوچنگ سے محروم رکھنے اور باقی دو صوبوں میں ایسی کوئی پابندی نہ لگانے سے میرٹ پر کشمیر کے حوالے سے انتہائی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ طلباءقوموں کا مستقبل ہوتے ہیں اور انکے لئے وزیر تعلیم جیسی اہم شخصیت کے منھ سے ”راوڈی“جیسے فقرے زیب نہیں دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ طلباءکو حصول تعلیم کو بنیادی مقصد بناتے ہوئے چلنا چاہیئے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ کٹھوعہ سانحہ کے حوالے سےابتداََ یہ خود سرکار کی ناکامی تھی کہ جسکی وجہ سے صورتحال یوں ہوگئی کہ طلباءبرادری سمیت ہر کسی کے دماغ میں خدشات ہیں اور سرکار کی سنجیدگی مشکوک ہوگئی ہے۔انجینئر رشید نے مزید کہا”اگر محض ایک بھی طالب علم کوچنگ سنٹر یا کسی کلاس روم میں جانےکے خواہاں ہوں تو یہ اسکا حق ہے جس سے انہیں محروم نہیں رکھا جاسکتا ہے۔طلبائ،والدین اور جملہ سماج سے تعاون طلب کرکے تعلیمی اداروں کو بلاروک چلانے کی کوششوں کی بجائے سرکار نے ایک آمرانہ حکم جاری کیا ہے جس پر عمل ہونے کی صورت میں کشمیری بچوں کے مستقبل پر انتہائی مضر اثرات دیکھے جاسکتے ہیں“۔

Exit mobile version