سرینگر// جموں کشمیر پولس نے ٹائمز آف انڈیا کی اس خبر کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے رد کردیا ہے کہ جس میں اخبار نے سیاحوں کی گاڑیوں پر حملے ہونے اور خوف و حراس کے عالم میں سیاحوں کے وادی سے فرار ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔پولس کا کہنا ہے کہ وادی¿ کشمیر سیاحوں کیلئے پوری طرح محفوظ ہے اور انہیں کہیں بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔معتبر اخبار نے سرینگر میں اپنے نمائندہ سلیم پنڈت کے نام سے ایک خبر شائع کی تھی جس میں جنوبی کشمیر کءاونتی پورہ کے علاوہ سرینگر کے ڈل جھیل کے آس پاس سیاحوں کی گاڑیوں پر پتھراو ہونے اور ان حملوں میں کئی خواتین سیاحوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور کہا تھا کہ ان واقعات سے خوفزدہ ہوکر سیاح وادی سے فرار ہورہے ہیں۔پولس نے تاہم کہا ہے کہ اسکی تحقیقات کے مطابق نہ ہی پتھراو کے یہ واقعات پیش آئے ہیں اور نہ ہی کسی سیاح کے زخمی ہونے کا ہی کوئی ثبوت ملا ہے جیسا کہ سلیم پنڈت کی خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے۔ایک پولس ترجمان نے تاہم بتایا کہ یکم اپریل کو سیاحوں کی دو گاڑیاں حادثاتی طور ایسے علاقے سے گذری تھی کہ جہاں احتجاجی مظاہرین پتھراو کررہے تھے۔اس واقعہ میں دو سیاحوں کو معمولی چوٹیں آئی تھیں جنکی مرہم پٹی کرکے انہیں روانہ کیا گیا تھا۔ترجمان نے مزید بتایا کہ سیاحوں پر عمداََ حملہ کئے جانے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔وادی میں محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹر نے بھی اس طرح کی خبروں کو بے بنیاد بتاتے ہوئے وادی کو سیاحوں کیلئے پوری طرح محفوظ قرار دیا ہے۔
خبر ایسے وقت پر سامنے آئی ہے کہ جب ریاستی سرکار سیاحوں کو وادی کی جانب راغب کرنے کیلئے جی توڑ کوششیں کررہی ہیں۔چناچہ ریاستی سرکار ابھی چند ہی روز قبل ٹراول ایجنٹوں کی معروف انجمن (ٹی اے اے آئی)کی میزبان تھی جن سے وادی کی سیاحت کو فروغ دینے کیلئے کوششیں کرنے کی درخواست کی جاچکی ہے۔دوسری جانب ایشیاءکا سب سے بڑا ٹولپ گارڈن ابھی جوبن پر ہے اور اسے دیکھنے کیلئے سیاحوں کا رش بڑھنے لگا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی خبر ایسے وقت پر سامنے آئی ہے کہ جب ریاستی سرکار سیاحوں کو وادی کی جانب راغب کرنے کیلئے جی توڑ کوششیں کررہی ہیں۔چناچہ ریاستی سرکار ابھی چند ہی روز قبل ٹراول ایجنٹوں کی معروف انجمن (ٹی اے اے آئی)کی میزبان تھی جن سے وادی کی سیاحت کو فروغ دینے کیلئے کوششیں کرنے کی درخواست کی جاچکی ہے۔دوسری جانب ایشیاءکا سب سے بڑا ٹولپ گارڈن ابھی جوبن پر ہے اور اسے دیکھنے کیلئے سیاحوں کا رش بڑھنے لگا ہے۔تاہم سیاحت سے وابستہ لوگوں کا ماننا ہے کہ ٹائمز آف انڈیا کی لگائی ہوئی خبر وادی کی سیاحت کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس معروف اخبار پر بھروسہ کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔
پولس نے تاہم کہا ہے کہ اسکی تحقیقات کے مطابق نہ ہی پتھراو کے یہ واقعات پیش آئے ہیں اور نہ ہی کسی سیاح کے زخمی ہونے کا ہی کوئی ثبوت ملا ہے جیسا کہ سلیم پنڈت کی خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے۔
روزنامہ کی مذکورہ رپورٹر کے ساتھ رابطے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو پائیں تاہم سوشل میڈیا پر اس خبر کو کشمیر دشمنی پر مبنی بتاتے ہوئے لوگوں نے انتہائی غم و غصہ کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کشمیریوں کو بدنام کرکے یہاں کی معشیت کو نقصان پہنچائے جانے کی کوششیں ناقابل برداشت ہیں۔واضح رہے کہ تشدد کا شکار رہی وادی کشمیر میں سیاحتی شعبہ کو انتہائی اہمیت حاصل ہے یہاں تک کہ اسے ریاست کی معشیت کیلئے ریڑح کی ہڈی کیطرح مانا جاتا ہے۔دلفریب قدرتی مناظر سے مالا مال ہونے کے باوجود بھی یہاں کی سیاسی غیر یقینیت کی وجہ سے بہت زیادہ سیاح یہاں آنے سے ہچکچاتے رہے ہیں حالانکہ یہ بات کئی ثبوت رکھتی ہے کہ وادی میں بدترین حالات میں بھی کبھی سیاحوں کو چھیڑا نہیں گیا ہے بلکہ 2010کی پر تشدد تحریک کے دوران سرینگر اور دیگر علاقوں میں لوگوں کی طرفسے ہڑتال میں درماندہ سیاحوں کو مفت اقامتی و طعام کی سہولیات فراہم کرتے ہوئے دیکھا جاچکا ہے۔پولس کا جموں کشمیر سرکار کے محکمہ سیاحت اور اس صنعت سے وابستہ کاروباریوں کے اس الزام کے ساتھ بہت حد تک اتفاق ہے کہ میڈیا کی منفی رپورٹنگ وادی کی سیاحت کو چوٹ پہنچاتی آرہی ہے۔