سرینگر// جانے پہچانے صحافی مقبول ساحل کا ابھی ابھی اچانک انتقال ہوگیا ہے جبکہ اس نا قابلِ یقین خبر نے اُنکے جاننے والوں کو شدید صدمے میں مبتلا کردیا ہے۔ حالانکہ ابھی تک ساحل کے انتقال کرجانے کی خبر کی تفصیلات جمع ہورہی ہیں تاہم بتایا جاتا ہے کہ شہر کے لالبازار علاقہ میں وہ چلتے چلتے اچانک گر پڑے اور ٹھنڈے پڑ گئے۔
وہ کئی مقامی اُردو اخبارات کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور ابھی بلند کشمیر اور کشمیر پرچم نامی اخبارات کے ساتھ وابستہ تھے۔ان اخباروں کو مالک و مدیر اور مشہور صحافی شجاعت بخاری نے اپنے فیس بُک پر ساحل کے اچانک انتقال کرجانے کی خبر دی اور اسے اپنے لئے صدمہ عظیم بتایا۔اُنہوں نے ساحل کی لاش کی ایک تصویر بھی شئیر کی ہے جس میں وہ گویا گہری نیند سوئے معلوم ہوتے ہیں۔
مقبول ساحل اُردو اخباروں کے ساتھ وابستہ تھے تاہم اُنہیں پہاڑی زبان پر بھی عبور حاصل تھا جبکہ گاہے گاہے انگریزی میں بھی لکھتے تھے اور فوٹو گرافی کا بھی شوق رکھتے تھے۔صحافی ہونے کے علاوہ وہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔چناچہ اُنکی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ مقبول ساحل کے اچانک گر جانے کے ساتھ ہی آس پاس سے گذرنے والے کئی لوگ اُنکی مدد کو آئے تھے تاہم وہ تب تک ٹھنڈے ہوچکے تھے۔اندازہ ہے کہ اُنہیں دل کا شدید دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا ہے۔مقبول ساحل اصل میں پہاڑی ذات کھوکھر تھے اور وہ جنوبی کشمیر کے کوکرناگ علاقہ کے باشندہ تھے تاہم کام کے سلسلے میں دہائیوں پہلے سرینگر آئے تھے اور تب سے یہیں اُنکی بودوپاش تھی۔
مقبول ساحل اُردو اخباروں کے ساتھ وابستہ تھے تاہم اُنہیں پہاڑی زبان پر بھی عبور حاصل تھا جبکہ گاہے گاہے انگریزی میں بھی لکھتے تھے اور فوٹو گرافی کا بھی شوق رکھتے تھے۔صحافی ہونے کے علاوہ وہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔چناچہ اُنکی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔اُنہوں نے کم از کم ایک کتاب کئی سالوں پر محیط قید کے دوران جموں کی کوٹ بلوال جیل میں لکھی تھی۔ ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے فیس بُک پر لکھا کہ وہ اور مقبول ساحل ایک ساتھ جیل کاٹ چکے ہیں۔