ذاکر کے دعویٰ کی تصدیق،تیسرا جنگجو حیدرآبادی

سرینگر// جموں کشمیر پولس نے عالمی شدت پسند تنظیم القائدہ کی کشمیری شاخ بتائی جانے والی انصار غزوتہ الہند کی اس دعویداری کی تصدیق کردی ہے کہ جنوبی کشمیر کے ہاکورہ میں عیسیٰ فاضلی اور سید اویس نامی جنگجووں کے ساتھ مارے جانے والے تیسرے جنگجو ہندوستانی ریاست حیدرآباد کے شہری تھے۔ ریاستی پولس کے چیف ایس پی وید نے دیر رات یہ بات ٹویٹ کرکے بتائی اور کہا کہ مذکورہ سوشل میڈیا کے ذرئعہ آئی ایس آئی ایس کے نظریہ سے متاثر ہوکر کشمیر آچکے تھے۔

اس تصدیقی بیان میں کہا گیا ہے کہ ”یہ بات پتہ چلی ہے کہ محمد توفیق، عمر 26 سال، ساکن مانوگرو 11/12 مارچ کی رات کو ضلع اننت ناگ کے ہاکورہ میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں دیگر دو کشمیری ملی ٹینٹوں سمیت مر گیا “۔ ڈی جی پی کشمیر نے مزید کہا ہے کہ محمد توفیق آبائی ریاست تلنگانہ میں کسی معاملے میں پولس کو مطلوب نہیں رہے ہیں اور وہ ”سوشل میڈیا کے ذرئعہ آئی ایس آئی ایس کے بنیاد پرستانہ نظریہ سے متاثر ہوکر آئی ایس آئی ایس کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کیلئے کشمیر گئے ہوئے تھے“۔

پولس یا کسی اور سرکاری ادارے نے تاہم ابھی تک انصار غزوتہ الہند کے اس دعویٰ کو مسترد یا منظور نہیں کیا تھا۔پولس نے البتہ یہ ضرور کہا تھا کہ مذکورہ جنگجو کی شناخت نہ ہونے کے بعد انہیں ایک غیر کشمیری کے بطور اس طرح کے جنگجووں کیلئے مخصوص شمالی کشمیر میں اوڑی کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ہاکورہ اینکاونٹر میں صورہ سرینگر کے عیسیٰ فاضلی اور ہاکورہ کے ایک مضافاتی علاقہ کے سید اویس نامی دو جنگجووں کے علاوہ ایک تیسے جنگجو بھی مارے گئے تھے جنکی شناخت نہیں ہو پائی تھی۔ تاہم انصار غزوة الہند نے دعویٰ کیا ہے کہ ہاکورہ مسلح تصادم میں جاں بحق ہونے والے تیسرے جنگجو کا تعلق جنوبی ہندمیں شہر حیدرآباد سے تھا۔ غزوة الہند جس کی قیادت تیس سالہ کشمیری جنگجو ذاکر رشید بٹ عرف ذاکر موسیٰ کررہے ہیں، نے مذکورہ جنگجو کی شناخت محمد توفیق کے بطور کی تھی۔ مسلح تصادم کے دو روز بعد سوشل میڈیا پر انصار غزوةالہند کا ایک مبینہ پمفلٹ نمودار ہوا جس میں عدم شناخت تیسرے جنگجو کی شناخت حیدرآباد کے رہائشی محمد توفیق کے بطور کی گئی۔ ”النصر“ نام کے ساتھ شائع ہونے والے اس پمفلٹ میں کہا گیا ”محمد توفیق جنوبی کشمیر کے علاقے اسلام آباد (اننت ناگ) میں 12 مارچ 2018 کی صبح ایک معرکے میں دو ساتھیوں عیسیٰ فاضلی اور سید اویس کے ساتھ شہید ہوگئے۔ آپ افغان مجاہد اور فاتح ہند محمود غزنوی کے ورثاءتھے“۔ اس میں کہا گیا ”شریعت اور شہادت کی پکار کو لبیک کہتے ہوئے ہندوستان کے شہر حیدرآباد سے محمد توفیق نے 2017 میں کشمیر کے کوہساروں کی طرف ہجرت کرکے اپنا جہادی سفر شروع کیا اور انصار غزوة الہند کے پہلے صفوں میں شامل ہوگئے“۔ پمفلٹ میں کہا گیا ہے”دور جدید میں محمد توفیق ہند سے کشمیر کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے مجاہد بنے اور شروع سے ہی دعوت و تبلیغ میں شرکت کی۔ آپ کا جہادی نام سلطان ذابل الہندی اور ابو ذر الہندی تھا“۔ مزید دعویٰ کیا گیا ہے ”ہم آپ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ محمد توفیق ایک اعلیٰ صفت اور مومن مزاج مجاہد تھا“۔

پولس یا کسی اور سرکاری ادارے نے تاہم ابھی تک انصار غزوتہ الہند کے اس دعویٰ کو مسترد یا منظور نہیں کیا تھا۔پولس نے البتہ یہ ضرور کہا تھا کہ مذکورہ جنگجو کی شناخت نہ ہونے کے بعد انہیں ایک غیر کشمیری کے بطور اس طرح کے جنگجووں کیلئے مخصوص شمالی کشمیر میں اوڑی کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔

Exit mobile version