سرینگر// نامور گرو شری شری روی شنکر کے ایک پروگرام کے دوران کشمیر کی آزادی کے نعرے لگنے کے بعد روی شنکر کو اپنی تقریر ادھورا چھوڑ کر یہاں سے جانا پڑا جبکہ شرکائِ مجلس نے منتظمین پر انہیں دھوکے سے یہاں لانے کا الزام لگایا ہے۔اس دوران یہاں کے ایک سرکردہ ممبر اسمبلی نے کہا ہے کہ کشمیریوں کو روی شنکر جیسے لوگوں سے کوئی ”آرٹ آف لیونگ“سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سخت ترین زندگی جیتے آرہے یہاں کے لوگ ژری شری یا کسی اور سے کہیں بہتر جینے کا سلیقہ جانتے ہیں۔
شری شری روی شنکر کی ”امن کانفرنس“کی کئی دنوں سے آمد آمد تھی اور ڈل جھیل کے کنارے واقعہ ایس کے آئی سی سی میں منعقد ہونے والے ”پیامِ محبت“نام کے اس پروگرام کی کئی دنوں سے تشہیر کی جا رہی تھی۔چناچہ سنیچر کی صبح کو وادی کے مختلف اضلاع سے یہاں شرکاءکی ایک بڑی تعداد پہنچی تاہم ان میں سے بیشتر نے بتایا کہ انہیں پوری طرح نہیں معلوم ہے کہ یہاں کیا ہورہا ہے اور انہیں یہاں آکے کیا کرنا ہے۔تاہم گھنٹوں تک انتظار کرانے کے بعد ان لوگوں کو شری شری روی شنکر کے روبرو کیا گیا تو بیشتر حاضرین کو اس حد تک غصہ آیا کہ وہ ”کشمیر کی آزادی“کے حق میں نعرہ بازی کرنے لگے۔انٹرنیٹ پر وائرل ہوچکی کئی ویڈیوز میں کئی لوگوں کو کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جن میں سے کئیوں کا الزام ہے کہ انہیں ”کسان میلہ“کا بتاکر دھوکے سے یہاں لایا گیا تھا۔بعض نوجوانوں نے بتایا کہ انہیں یہ کہا گیا تھا کہ اس پروگرام میں شرکت پر انہیں ”کرکٹ کٹ“دی جائے گی تاہم بعدازاں انہیں پتہ چلا کہ انہیں ”کسی شری شری“کی تقریر سننے کیلئے لایا گیا ہے۔چناچہ ہنگامہ آرائی اور افراتفری کے عالم میں شری شری روی شنکر محض سات منٹ تک بولتے رہے جسکے بعد وہ تقریر ادھوری چھوڑ کر یہاں سے عجلت میں چلے گئے۔اس سے قبل شری شری کی ”آرٹ آف لیونگ“نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس پروگرام کے ”امن عمل اور قیام بھروسہ “پر دور رس اثرات ہوسکتے ہیں۔
” شری شری روی شنکر جیسے لوگ وقت وقت وقت پر اسلئے کشمیر کا دورہ کرتے ہیں تاکہ یہاں کے لوگوں کی نبض کو ٹٹول کر دیکھیں کہ آیا وہ ابھی تک مطالبہ رائے شماری پر بنے ہوئے ہیں یا پھر انکی سکت ختم ہو چکی ہے اور وہ تھک گئے ہیں“
دریں اثنا اس واقعہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے یہاں کے ایک سرکردہ ممبر اسمبلی اور عوامی اتحاد پارٹی کے صدر انجینئر رشید نے ایک بیان میں شری شری کے دورہ کشمیر کو بے مقصد بتایا اور کہا کہ انہیں کشمیریوں کو ”نام نہاد پیامِ محبت“دینے کی بجائے جنوبی کشمیر میں فوجی کیمپوں کا دورہ کرکے انہیں محبت کے معنیٰ اور اسکی اہمیت سکھانی چاہیئے تھی۔واضح رہے کہ جنوبی کشمیر میں فوج نے ماہ بھر کے دوران درجن بھر عام شہریوں کو گولی مار کر جاں بحق کردیا ہے۔
ایس کے آئی سی سی میں شری شری روی شنکر کے پروگرام کے دوران پیش آئے واقعہ کو” نئی دلی کیلئے چشم کشا“ بتاتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا ہے کہ شری شری کو ایمانداری اور سچائی کے ساتھ جموں کشمیرکے لوگوں کے جذبات اور احساسات پورے ہندوستان تک پہنچانے چاہیئے۔انہوں نے کہاہے” کشمیریوں کو ماضی کے بھول جانے کی نصیحت دینے سے قبل شری شری روی شنکر کو نئی دلی کو بھی ماضی کی ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسئلہ کشمیر کے پائیدار ،حقیقت پسندانہ اور محترم حل پر تیار ہونے کا مشورہ دینا چاہیئے تھا۔اگر شری شری روی شنکر نے 1989سے قتل کئے گئے کشمیریوں کے بارے میں اپنے زیر تصرف فورموں میں کبھی آواز اٹھائی ہوتی تو کشمیری عوام یقیناََ انکی کوششوں کی تعریفیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ شری شری روی شنکر کو کشمیر آکر لوگوں کو نصیحت دینے کی کوشش کرنے سے قبل یہاں جاری قتل عام کی مذمت کرنے کے علاوہ سیول سوسائٹی اور دیگر ذرائع سے حکومت ہند پر کشمیریوں کو انکا حقِ رائے شماری دینے پر آمادہ کرنے کیلئے دباو ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیئے تھی“۔بیان میں درج ہے” شری شری روی شنکر جیسے لوگ وقت وقت وقت پر اسلئے کشمیر کا دورہ کرتے ہیں تاکہ یہاں کے لوگوں کی نبض کو ٹٹول کر دیکھیں کہ آیا وہ ابھی تک مطالبہ رائے شماری پر بنے ہوئے ہیں یا پھر انکی سکت ختم ہو چکی ہے اور وہ تھک گئے ہیں“۔