فوجی احساسِ گناہ کے تحت خود کشی کر رہے ہیں

سرینگر// شمالی کشمیر میں محض چند گھنٹوں کے وقفہ سے دو فوجی اہلکاروں کی خود کشی کے واقعات کو ”تشویشناک“بتاتے ہوئے ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کسی نہ کسی طرح انسانی زندگیوں کو کھاتا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ فوج کو بھلے ہی افسپا جیسے”گندے اور کالے“قانون کا تحفظ ہو لیکن فوجی اہلکار اپنے ضمیر کی عدالت میں احساس گناہ کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں۔

فوج یا دیگر فورسز میں ایسے بھی کئی لوگ موجود ہیں جو اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور وادی کشمیر میں بے گناہوں کے قتل ناحق کے بوجھ تلے خود کو دبا ہوا محسوس کرتے ہیں جسکا بعض اوقات یہ لوگ دوردراز کے گاوں میں،ڈیوٹی کے دوران، لوگوں کے ساتھ گھل مل جانے پر اظہار بھی کرتے ہیں۔

عوامی اتحاد پارٹی کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق انجینئر رشید نے آج ہندوارہ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فوجی اہلکاروں کے پے درپے خود کشی کرنے کے واقعات کو افسوسناک بتایا اور ان پر تشویش کا اظہار کیا۔بیان کے مطابق انجینئر رشید نے کہا ہے کہ ان جیسے واقعات سے ان لوگوںکی آنکھیں کھل جانی چاہیئے کہ جو نفرتیں پیدا کرکےجنگ پر اکسانے کی مہم چلاتے ہیں۔انہوں نے کہا ہے” ان لوگوں کو سمجھنا چاہیئے کہ وردی پہنے ہوئے فوجی اہلکار بھی انسان ہیں اور وہ نہ اپنے اردگرد ہونے والے واقعات سے کٹ کے رہ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے ماحول کا اثر لئے بنا رہ سکتے ہیں۔ پے درپے خود کشی کے واقعات سے سمجھ لیا جانا چاہیئے کہ فوجیوں اور دیگر فورسز کے اہلکاروں کی ذاتی زندگیاں کس حد تک انکے آس پاس کے حالات سے متاثر ہو رہی ہیں“۔انہوں نے کہا کہ اپنے آپ کو حد سے زیادہ(نام نہاد) قوم پرست سمجھنے والوں کو میجر اوتار سنگھ ، جنہوں نے انسانی حقوق کے نامور کارکن ایڈوکیٹ جلیل اندرابی کو قتل کردیا تھا، کی خود کشی سے واضح ہوجاتا ہے کہ جلد یا بدیر انسان کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور افسپا جیسے گندے اور کالے قوانین کے تحفظ کے باوجود بھی وہ خود کو ضمیر کی عدالت میں گناہگار تصور کرتا ہے۔

انجینئر رشید نے مزید کہا کہ فوجی ہو یا کوئی اور وردی والا وہ اپنی پیشہ ورانہ مجبوریوں کی وجہ سے کبھی اپنے دل کی نہیں بول پاتا ہے لیکن فوج یا دیگر فورسز میں ایسے بھی کئی لوگ موجود ہیں جو اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور وادی کشمیر میں بے گناہوں کے قتل ناحق کے بوجھ تلے خود کو دبا ہوا محسوس کرتے ہیں جسکا بعض اوقات یہ لوگ دوردراز کے گاوں میں،ڈیوٹی کے دوران، لوگوں کے ساتھ گھل مل جانے پر اظہار بھی کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خود کشی کے ان واقعات کو سرسری لینے کی بجائے متعلقین کو موقعہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انسانی زندگی اور باالخصوص ماوں کے درد کو محسوس کرنے پر آمادہ ہونا چاہیئے اور مسئلہ کشمیر کو حل کیا جانا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ دہائیوں سے لٹکتا آرہا یہ مسئلہ کہیں باالواسطل اور کہیں بلا واسطہ انسانی زندگی کے اتلاف کی وجہ بن رہا ہے جبکہ وقت کا تقاضا اس سلسلے کو روکنے کا ہے۔واضح رہے کہ کپوارہ کے لنگیٹ اور لولاب میں کل سے دو فوجی اہلکاروں نے اپنی سروس رائفلوں کے گھوڑے دبا کر اپنا خون کردیا ہے۔

Exit mobile version