سر ینگر// عالمی شدت پسند تنظیم آئی ایس آئی ایس نے سرینگر کے صورہ علاقہ میں ایک علیٰحدگی پسند لیڈر،فضل الحق قریشی،کے گھر پر حملہ کرکے انکے ایک محافظ پولس اہلکار کی ہلاکت اور ان سے ہتھیار چھین لئے جانے کے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرکے سنسنی پھیلادی ہے۔آئی ایس آئی ایس نے اپنی دعویداری میں وزن ڈالنے کیلئے پولس اہلکار سے چھین لئے گئے ہتھیار کی تصویر بھی جاری کردی ہے تاہم ریاستی پولس کے ڈائریکٹر جنرل،ایس پی وید،نے کہا ہے کہ جب تک نہ حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا جائے ریاست میں آئی ایس آئی ایس کی موجودگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔
جب تک حملہ آوروں کو گرفتار نہیں کر لیا جاتا ریاست میں آئی ایس آئی ایس کی موجودگی سے متعلق کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔
صورہ کی بلال کالونی میں دو روز قبل نا معلوم جنگجووں نے حریت لیڈر فضل الحق قریشی کے گھر کے سرکاری پہریداروں پر حملہ کرکے ایک پولس اہلکار کو ہلاک کردیا تھا اور پھر انکی سروس رائفل بھی چھین لی تھی۔اس واقعہ سے نہ صرف اسلئے سنسنی پھیل گئی تھی کہ اس علاقہ میں ایک عرصہ کے بعد جنگجووں نے اپنی موجودگی کا احساس کرایا تھا بلکہ اس لئے بھی کہ یہ حملہ ایک علیٰحدگی پسند لیڈر کے گھر پر ہوا تھا۔حالانکہ نئی دلی کے قریب ہونے کے شبہ میں اس سے قبل،2009میں، خود فضل الحق قریشی پر حملہ کیا جاچکا ہے جس میں وہ بال بال بچ تو گئے تھے تاہم انہیں مہینوں بستر پر پڑے رہنا پڑا۔
پولس کی جانب سے قریشی کے گھر ہوئے تازہ حملے کی تحقیقات جاری ہے تاہم آئی ایس آئی ایس سے وابستہ ایک ویب سائٹ پر تنظیم نے اس حملے کی نہ صرف ذمہ داری قبول کی ہے بلکہ پولس اہلکار سے چھین لئے گئے ہتھیار کی تصویر بھی جاری کردی گئی ہے۔اس حوالے سے پولس چیف ایس پی وید نے تاہم کہا ہے کہ جب تک حملہ آوروں کو گرفتار نہیں کر لیا جاتا ریاست میں آئی ایس آئی ایس کی موجودگی سے متعلق کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔دلچسپ ہے کہ اس سے قبل پولس چیف عالمی شدت پسند تنظیم کی ریاست میں موجودگی سے واضح انکار کرتے رہے ہیں۔دلچسپ ہے کہ آئی ایس آئی ایس نے کئی بار ریاست میں موجود ہونے کے اشارے دینے کی کوشش کی ہے تاہم مقامی جنگجووں اور پولس ،دونوں،نے ہی اس بات سے واضح انکار کردیا۔ریاست میں سرگرم جنگجو تنظیموں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کا موقف ہے کہ جموں کشمیر میں عالمی تنظیموں کا کوئی رول نہیں ہے۔کونسل کا الزام رہا ہے کہ یہ خود حکومتی ادارے ہیں کہ جو جموں کشمیر کی جنگجوئیت کا عالمی تحریکوں کے ساتھ تعلق جوڑ کر دکھانے میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اور یہی ادارے ریاست میں القائدہ یا آئی ایس آئی ایس جیسی تنظیموں کی موجودگی کے شوشے چھوڑتے ہیں۔پولس اور فوج تاہم ان الزامات کے ساتھ ساتھ القائدہ یا آئی ایس آئی ایس کی ریاست میں موجودگی سے انکار کرتی رہی ہیں۔