جموں// جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اتوار کو یہاں ایک کل جماعتی میٹنگ کی صدارت کی جس میں ریاست میں پنچایتی الیکشن کرانے یا نہ کرانے کے بارے میں غوروخوض ہوا۔ حالانکہ دیر گئے تک سرکار کی جانب سے میٹنگ میں لئے جانے والے کسی حتمی فیصلے کا اعلان تو نہیں کیا گیا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ بیشتر شرکاءنے انتخابی عمل کیلئے وادی کے حالات کو غیر موذون قرار دیتے ہوئے اسے مو¿خر کردئے جانے کی صلاح دی ہے۔
وزیر اعلیٰ کے قریبی اور ریاست میں دیہی ترقی کے وزیر عبدالحق خان نے بتایا کہ بیشتر لیڈروں نے برملا طور کہا کہ چونکہ وادی میں حالات موذون نہیں ہیں لہٰذا انتخابی عمل کو ٹالا جانا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ اس بارے میں تفصیلی بحث ہوئی ہے اور انتخابی عمل کو مو¿خر کرنے کی تجویز دینے والے کئی دلیلیں دے رہے ہیں۔ عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے میٹنگ کے بعد جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے برملا طور انتخابات کے انعقاد کے خلاف اپنی رائے رکھی ہے۔
ریاست میں قریب چار دہائیوں کے وقفہ کے بعد 2011میں پنچایتوں کیلئے الیکشن کرایا گیا تھا اور پھرپنچایتی انتخابات2016میں طے تھے تاہم حزب المجاہدین کے نامور کمانڈر برہان وانی کے مارے جانے کے بعد پیدا شدہ صورتحال میں سرکار نے انتخابی عمل کو ٹال دیا تھا۔
عوامی اتحاد پارٹی کی جانب سے جاری کردہ اس بیان میں کہا گیا ہے”پنچایت الیکشن کرانے یا نہ کرانے سے متعلق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی سربراہی میں منعقدہ کل جماعتی میٹنگ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا کہ چونکہ مرکزی سرکار پنچایت ممبران تک کو عالمی برادری کو ،مسئلہ کشمیر کے حوالے سے،دھوکہ دینے کیلئے استعمال کرتی رہی ہے لہٰذا اسے انتخاب کرانے کی بڑی جلدی ہے اور اس سلسلے میں ریاستی سرکار پر دباو¿ ڈالا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پنچایت الیکشن کراتے وقت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ایک غیر سیاسی عمل ہے لیکن بد قسمتی سے الیکشن ختم ہوتے ہی اسے ایک بڑی کامیابی اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جوں کی توں حالت پر کشمیریوں کی رضامندی کے ثبوت کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہی غیر حقیقت پسندانہ پروپیگنڈا ہے کہ جسکی وجہ سے پنچوں اور سرپنچوں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے یہاں تک کہ ان میں سے کتنوں ہی کو اپنی جان تک گنوانا پڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے میں کہ جب وادی میں سرکاری دہشت گردی عروج پر ہے،انٹرنیٹ پر بار بار پابندی لگائی جاتی ہے،احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا ہے اور لوگ مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کا مطالبہ کر رہے ہیںپنچایت الیکشن کرانا بے معنیٰ ہے“۔انہوں نے مزید کہاہے کہ مین اسٹریم کی پارٹیوں کو متحد ہوکر نئی دلی کو مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کیلئے سنجیدہ مذاکرات کیلئے دباو¿ ڈالنا چاہیئے اور اپنی اعتباریت بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
ریاست میں قریب چار دہائیوں کے وقفہ کے بعد 2011میں پنچایتوں کیلئے الیکشن کرایا گیا تھا اور پھرپنچایتی انتخابات2016میں طے تھے تاہم حزب المجاہدین کے نامور کمانڈر برہان وانی کے مارے جانے کے بعد پیدا شدہ صورتحال میں سرکار نے انتخابی عمل کو ٹال دیا تھا۔سالِ رفتہ کے آخر پر محبوبہ مفتی نے اچانک اور حتمی اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 15فروری سے پنچایتی انتخابات کرائے جائیں گے ۔ حالانکہ تبھی کچھ سیاسی مبصرین نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ ابھی حالات پوری طرح پر امن نہیں ہیں لہٰذا سرکار کو انتخابی بگل بجاکر ایک طرح کا اشتعال نہیں دینا چاہیئے تھا۔
واضح رہے کہ جموں کشمیر میں کوئی بھی انتخابی عمل متنازعہ ہوتا آیا ہے اور علیٰحدگی پسند قیادت نے اب کی بار بھی سرکار کے انتخابات کے اعلان کے اعلان کے ساتھ ہی لوگوں سے انتخابات کے بائیکاٹ کیلئے کہا ہے۔حالانکہ پی ڈی پی نے حالیہ دنوں میں کئی بیانات دیکر واضح کرنا چاہا کہ انتخابی عمل کسی بھی صورت میں معلنہ تاریخوں پر ہی انجام پائے گا تاہم گذشتہ ہفتے جنوبی کشمیر میں فوج کے ہاتھوں قریب نصف درجن نوجوانوں کے قتل ہونے کے بعد پیدا شدہ صورتحال میں خود سرکار کی ٹانگیں بھی لڑ کھڑاتے ہوئے محسوس ہوئی ہیں اور اسی لئے محبوبہ مفتی نے کل جماعتی میٹنگ طلب کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر انتخابی عمل ایک بار پھر ملتوی ہوگا تو انہیں یہ کہنے کا بہانہ دستیاب رکھے کہ ایسا سبھی پارٹیوں کے کہنے پر کیا گیا ہے۔اس سے قبل گذشتہ سال جنوبی کشمیر میں اننت ناگ کی پارلیمانی نشست کاضمنی انتخاب بھی آخری وقت پر تب ملتوی کردیا گیا تھا کہ جب سرینگر کی پارلیمانی نشست کے انتخاب کے دوران تشدد میں نو افراد سرکاری فورسز کی گولیوں کا شکار ہوکر مرگئے تھے جبکہ محض چھ فیصد لوگوں نے ووٹ دیا تھا۔