2016ایجی ٹیشن،سرکار نے گناہ کو ”چھوٹا کرکے“قبول کرلیا!

فائل فوٹو

جموں// جموں وکشمیرسرکار نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر برہان وانی کے 2016میں سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کے ردعمل میں ہوئے احتجاجی مظاہروں میں زائد از 9ہزار افراد زخمی ہوئے تھے ۔سرکار نے یہ بھی مان لیا ہے کہ قریب سوا چھ ہزار افراد متنازعہ اور بدنام زمانہ پیلٹ گن کا شکار ہوگئے تھے جبکہ مارے جانے والوں کی تعداد محض 51بتائی گئی ہے حالانکہ خود سرکار نے 76افراد کے لواحقین کے حق میں پہلے ہی معاوضہ منظور کیا ہوا ہے۔

وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے،جو ریاست کی وزیرِ داخلہ بھی ہیں،نے جمعہ کے روز یہاں ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن نیشنل کانفرنس کے ایک ممبرکی جانب سے پوچھے گئے سوال کے تحریری جواب میںکہا ہے کہ ریاست میںبرہان وانی کے مارے جانے کے دن،8جولائی 2016 ئ، سے لیکر 27 فروری 2017 ءتک سرکاری فورسز کی کارروائی میں 15 افراد کلی جبکہ 39 افراد جزوی طور پر معذور ہوگئے ہیں ۔ محبوبہ مفتی نے اپنے تحریری جواب میں کہا ہے’ ’متذکرہ آٹھ ماہ کے عرصہ کے دوران 9 ہزار 42 افراد زخمی ہوئے۔ ان میں 368 گولی لگنے، 6221 چھرے لگنے ، 4 پاوا شیل لگنے اور 2449 دوسرے طریقوں سے زخمی ہوئے ۔ اس عرصہ کے دوران 51 افراد جاں بحق ہوئے“۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ 782 افراد کی آنکھیں زخمی ہوئی ہ ہیںجن میں سے 510 افراد کا مختلف اسپتالوں میں علاج کیا گیا۔ جواب میں کہا گیاہے’ ’چھرے (پیلٹ)سے زخمی ہونے والے 5197 افراد کا ضلعی اسپتالوں میں علاج کیا گیا جبکہ باقیوں کا سوپر سپیشلٹی اسپتالوں میں علاج کیا گیا“۔ جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں سب سے زیادہ 1571 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم سب سے زیادہ 16اموات ضلع اننت ناگ میں ہوئی تھیں۔

برہان وانی وادی میں ہر دلعزیز اور نامدار تھے جنکے سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کے ردعمل میں مہینوں پر محیط احتجاجی لہر چلی تھی۔وادی میں بلاناغہ زائد از پانچ ماہ تک ہڑتال رہی تھی اور روزانہ ہزاروں افراد کے جلوس برآمد ہوئے تھے جبکہ سرکاری فورسز نے احتجاجی تحریک کو دبانے کیلئے طاقت کا استعمال کرکے،انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور اخباری رپورٹوںکے مطابق،قریب سو بھر افراد کو جاں بحق اور تقریباََ پندرہ ہزار کو زخمی کردیا تھا۔

جموں کشمیر کی علیٰحدگی پسند جنگجوئیت کی نئی پہچان مانے جانے والے برہان وانی وادی میں ہر دلعزیز اور نامدار تھے جنکے سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کے ردعمل میں مہینوں پر محیط احتجاجی لہر چلی تھی۔وادی میں بلاناغہ زائد از پانچ ماہ تک ہڑتال رہی تھی اور روزانہ ہزاروں افراد کے جلوس برآمد ہوئے تھے جبکہ سرکاری فورسز نے احتجاجی تحریک کو دبانے کیلئے طاقت کا استعمال کرکے،انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور اخباری رپورٹوںکے مطابق،قریب سو بھر افراد کو جاں بحق اور تقریباََ پندرہ ہزار کو زخمی کردیا تھا۔سرکاری فورسز نے متنازہ پیلٹ گن،یا چھرے دار بندوق،کا استعمال کرکے ہزاروں لوگوں کو زخمی کردیا تھا جن میں سے کئی کی آنکھیں کلی یا جزوی طور ضائع ہوچکی ہیں۔

محبوبہ مفتی نے ایک اور سوال کے جواب میں انکشاف کیا کہ اس دوران میں525 افراد پرپبلک سیفٹی ایکٹ( پی ایس اے) کا اطلاق کیا گیا۔ تاہم انہوں نے دعویٰ کہ ان میں سے سبھی افراد کو رہا کیا جاچکا ہے۔ مفتی نے کہا کہ سال 2017 ءکے دوران 201 افراد پر پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے جن میں سے اس وقت صرف 77 افراد کو تحویل میں رکھا گیا ہے۔ انہوںنے کہا ہے ”201 میں سے 124 کو رہا کیا جاچکا ہے جبکہ صرف 77 افراد کو حفاظتی تحویل میں رکھا گیا ہے“۔واضح رہے کہ پی ایس اے کے تحت عدالتی پیش کے بغیر کسی بھی شخص کو کم از کم چھ ماہ تک قید کیا جاسکتا ہے۔ جموں وکشمیر میں اس ایکٹ کا اطلاق حریت پسندوں اور آزادی حامی احتجاجی مظاہرین پر کیا جاتا ہے۔ جن پر اس ایکٹ کا اطلاق کیا جاتا ہے اُن میں سے اکثر کو کشمیر سے باہر جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔جموں کشمیر سرکار پر اس قانون کے بے جا اور سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کا الزام لگتا آرہا ہے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک’ ’غیرقانونی قانون“ قرار دیا ہے۔

Exit mobile version