جموں// جموں کشمیر اسمبلی کے ایک سرکردہ ممبر اور عوامی اتحاد پارٹی کے صدر انجینئر رشید نے آج ریاستی اسمبلی میں آسیہ اور نیلوفر آف شوپیاں کی یاد دلاتے ہوئے پُراسرار حالات میں قتل ہونے والی نند بھابی کے نام پر ایک کالج کے قیام کا مطالبہ کیا۔انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس معاملے پر خوب سیاست کی تھی تاہم اقتدار میں آںے کے بعد وہ اس مسئلے کو بھول گئی ہیں۔
پارلیمنٹ حملے کے الزام میں سولی چڑھائے گئے افضل گورو کے اکلوتے بیٹے غالب افضل گورو کی،بارہویں کے امتحان میں، شاندار کامیابی کیلئے انہیں مبارکبادی دینے کے علاوہ دیگر ممبران اسمبلی کی، غالب کی حوصلہ افزائی کیلئے ایک لفظ بھی نہ کہنے پر،تنقید کی۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اگرچہ پیلٹ گن کی شکار انشاءمشتاق کیلئے گیس ایجنسی منظور کرلی ہے تاہم انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ کوئی گیس ایجنسی یا کتنا ہی بڑا کوئی بھی اقتصادی پیکیج انشاءکی آںکھیں واپس نہیں لوٹا سکتا ہے۔انجینئر رشید نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے غالب گورو کی شاندار کامیابی کو نظرانداز کرنے کو ترجیح دی حالانکہ غالب نے تمام تر مشکلات ،یہاں تک کہ اپنے باپ کی قبر کا دیدار کرنے کی اجازت تک نہ ملنے، کے باوجود عزم و ہمت کے ساتھ چلینجز کا مقابلہ کرتے ہوئے شاندار کامیابی پائی ہے۔انہوں نے کہا کہ فقط غالب گورو ہی حوصلہ افزائی اور تہنیت کے مستحق نہیں ہیں بلکہ انکی والدہ بھی اتنے ہی تعریفوں کی حقدار ہیں کیونکہ وہ ایسی سبھی خواتین کیلئے مشعل راہ ہیں کہ جنکے کندھوں پر یتیم بچوں کا بوجھ آگیا ہے با الخصوص جو تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔
رشتے میں نند بھابی آسیہ اور نیلوفر جنوبی کشمیر میں شوپیاں قصبہ کی رہنے والی تھیں اور2009میں انہیں پُراسرار حالات میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے کے بعد یہاں کے ایک نالہ میں مردہ پایا گیا تھا۔
انجینئر رشید نے ایوان میں موجود وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی پر گرجتے ہوئے انہیں آسیہ اور نیلوفر کی یاد دلائی اور کہا کہ کس طرح محبوبہ مفتی ان بد نصیب نند بھابی کے حوالے سے بیانات دیتی رہیں اور دعویداریاں کرتی رہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہیں جیسے کچھ یاد ہی نہیں رہا۔عوامی اتحاد پارٹی نے محبوبہ مفتی کو مخاطب کرتے ہوئے انسے کہا کہ اگر وہ ان دونوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتی ہیں تو بھی انہیں کم از کم ان دونوں کے نام پر شوپیاں میں ایک زنانہ کالج کا قیام عمل میں لانا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ چونکہ خود سرکاری اعدادوشمار کے مطابق شوپیاں اور اسکے گردونواح کی نوے فیصد لڑکیاں مختلف تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں لہٰذا اگر آسیہ اور نیلوفر کے نام کالج بنایا جائے تو یہ،کسی حد تک، ان دونوں کے تئیں خراج عقیدت کا ذرئعہ ہوسکتا ہے۔اپنے اس مطالبے کیلئے ایوان کی حمایت چاہتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا کہ اگر نربھیا کیلئے سارا ہندوستان کھڑا ہوسکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آسیہ اور نیلوفر کے ساتھ ہوئی نا انصافی اس ایوان کو ایک کرکے انکے لئے انصاف مانگنے یا کم از کم انہیں خراج عقیدت پیش کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتی ہے۔
رشتے میں نند بھابی آسیہ اور نیلوفر جنوبی کشمیر میں شوپیاں قصبہ کی رہنے والی تھیں اور2009میں انہیں پُراسرار حالات میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے کے بعد یہاں کے ایک نالہ میں مردہ پایا گیا تھا۔اس واقعہ کیلئے سرکاری فورسز پر الزام آیا تھا اور تحقیقات کے مطالبہ کو لیکر وادی میں مہینوں ہڑتال رہی تھی جبکہ احتجاجی مظاہروں کے دوران کئی لوگ جاں بحق اور دیگر کئی زخمی ہوگئے تھے۔حالانکہ حکومت نے عوامی مطالبے پر اس واقعہ کی سی بی آئی کے ذرئعہ ”تحقیقات“تو کروائی تھی تاہم ایجنسی کیلئے ملزموں کی نشاندہی” ممکن“ نہیں ہوسکی تھی۔