سرینگر//جموں کشمیر حکومت نے اپنے ملازمین کیلئے سوشل میڈیا پر پابندی لگاتےہوئے انہیں اپنے ذاتی اکاونٹ کو سیاسی سرگرمیوں کیلئے استعمال نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔سرکار کے اس حکم کو تاہم آمرانہ اور تانا شاہانہ قرار دیتے ہوئے مختلف حلقوں نے اسکی مذمت کی ہے جبکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر بھی اس حوالے سے بحث و مباحثہ جاری ہے اور سرکار کی مزاحیہ انداز میں شدید تنقید ہورہی ہے۔حکومت کے محکمہ انتظامِ عامہ کی جانب سے جاری کردہ ایک باضابطہ حکم نامہ میں کہا گیا ہےکہ کوئی بھی سرکاری ملازم سوشل میڈیا پر کوئی ”مجرمانہ،بددیانت،غیر اخلاقی یا ناشائستہ“حرکت نہ کرے ۔
منگل کوجاری ہوئے ایک ایس آر وزیر نمبر525 میں محکمہ انتظامِ عامہ کے کمشنر سیکریٹری نے ریاستی آئین کی دفعہ124 کے تحت گورنر کو حاصل اختیارات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاہے کہ” جموں کشمیر گورنمنٹ ایمپلائز کنڈک رول1971“ میں کچھ ترامیم کی جارہی ہیں۔ ایس آر او میں کہا گیا ہے کہ رول13میں ایک نئی شق جوڑی گئی ہےجس کی رُو سے” کوئی بھی سرکاری ملازم سوشل میڈیا پر مجرمانہ،غیر اخلاقی،بدنام و شرمناک رویہ پیش نہ کریں،جو حکومت کیلئے تعصب کا باعث بنیں“۔اس حکم نامہ میں مزید کہا گیا ہے”کو ئی بھی سرکاری ملازم اپنا ذاتی سوشل میڈیا اکونٹ کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی کیلئے استعمال میں نہیں لائے گا،یا کسی سیاسی لیڈر و شخصیت کے ٹویٹ،پوسٹ یا بلاگ کی توثیق کریگا“۔ سرکاری ملازمین کیلئے جاری کی گئی گائڈ لائن میں کہا گیا ہے”(سرکاری ملازمین) اپنے اکاونٹ اس طرح سے استعمال میں نہ لائے،جس سے معقول حد تک یہ انداز ہ ہوجائے کہ حکومت انکی ذاتی سرگرمیوں کے کسی بھی معاملے کی توثیق یاتردید کرتی ہے“۔ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر ایسا کچھ درج نہ کریں کہ جس سے قارئین مشتعل ہوکر کوئی جذباتی ردعمل ظاہر کرنے پر آمادہ ہوجائیں اور حالات بگڑنے کا اندیشہ ہو۔
چونکہ سرکاری ملازمین پڑھے لکھے ہیں لہٰذا سرکار کو ڈر ہے کہ وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں کے ذرئعہ بیرونی دنیا کو کشمیر کی ”اصل صورتحال“سے آگاہ نہ کریں….انجینئر رشید
حکم نامہ میں،جسکے لئے سرکار کو کئی اطراف سے تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا ہے، کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ ملازمین نے سماجی میڈیا پر کام کے دباﺅ پر کھل کر اظہار کیا،جس کی وجہ سے انتظامیہ کیلئے غیر ضروری مسائل پیدا ہوئے۔نئے وضع کردہ ضوابط میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے عوامل سے نظم شکنی پیدا ا ہوتی ہے،جس کی توقعات سرکاری ملازم سے نہیں ہوتی۔مزید کہا گیا ہے کہ یہ رہنما خطوط سرکاری ملازمین کیلئے ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی میں فرق پیدا کرنے کیلئے معروض وجود میں لائی گئی ہے۔
حالانکہ حکومت کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ سرکاری ملازمین کیلئے یہ ضوابط انہیں محض ایک ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے کیلئے بنائے گئے ہیں تاہم بعض لوگوں نے سرکار کی نیت پر شک کرتے ہوئے اسے لوگوں سے بنیادی حقوق چھین لینے کے مترادف قرار دیا ہے۔اپوزیشن نیشنل کانفرنس نے سرکاری فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے دور میں سوشل میڈیا کے استعمال پر قدغنیں عائد کرنا جمہوری قدروں کے منافی ہیں۔پارٹی کے ایک ترجمان نے کہا کہ جموں و کشمیر کا پشتینی باشندہ ہونے کے ناطے ایک سرکاری ملازمین کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہے اور ایک شہری سرکاری ملازم ہونے کے باوجود ریاست اور سماج کے مختلف معاملات کے بارے میں اظہارِ رائے ظاہر کرنے کا حق رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کیلئے ایسا کرنا مجبوری بن گئی تھی کیونکہ گزشتہ تین سال کی حکمرانی کے دوران پی ڈی پی بھاجپا اتحاد نے ظلم و ستم، مار دھارڈ، بدانتظامی، بدحکمرانی، رشوت ستانی، کورپشن، کنبہ پروری اور چور دروازے سے بھرتیاں عمل میں لانے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔
علیٰحدگی پسند حریت کانفرنس”ع“ کے چیئرمین مولوی عمر فاروق نے سرکار کی جانب سے ریاست کے سرکاری ملازمین اور اُن کے اہل خانہ کو سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کے حکم نامے کو حد درجہ آمرانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین جو سماج کا حساس اور پڑھا لکھا طبقہ ہے کے اظہار رائے پر قدغن سرکار کی بوکھلاہٹ اور عوام کا سامنا کرنے میں اس کی ناکامی کا برملا اظہار ہے۔
سرکرہ ممبر اسمبلی اور کام نویس انجینئر رشید نے ایک بیان میں اس حکم نامہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکار دراصل اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔انہوں نے یہاں تک الزام لگایا ہے کہ چونکہ سرکاری ملازمین پڑھے لکھے ہیں لہٰذا سرکار کو ڈر ہے کہ وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں کے ذرئعہ بیرونی دنیا کو کشمیر کی ”اصل صورتحال“سے آگاہ نہ کریں۔انکے بقول نئی دلی کو معلوم ہے کہ جموں کشمیر میں اسکے کھاتے میں ”ظلم و جبر“کے سوا بات کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے لہٰذا لوگوں کی زبان بندی کا ساماں کیا جانے لگا ہے۔انہوں نے اس فیصلے کی مزاحمت کئے جانے کا بھی لوگوں کو مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ ملازمین چونکہ سماج کا حصہ ہیں لہٰذا وہ کسی بھی صورت میں اپنے لوگوں پر ہورہی زیادتیوں پر خاموش نہیں رہ سکتے ہیں۔فیس بک اور سماجی رابطے کی دیگر ویب سائٹوں پر اس حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے اور بیشتر لوگ مزاحیہ انداز میں سرکار کی تنقید کررہے ہیں جبکہ بعض لوگ ملازمین کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مشورہ دے رہے ہیں حالانکہ ابھی تک کسی بھی ملازم تنظیم کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔