پلوامہ// جیش محمد کے ڈویژنل کمانڈر نور محمد تانترے عرف نور ترالی کے مارے جانے کے خلاف جنوبی کشمیر کے مختلف حصوں میں بدھ کے روزبھی ہڑتال جاری رہی تاہم بارہمولہ-بانہال ریل بحال ہوکر معمول کے مطابق چلتی رہی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق پلوامہ ضلع کے ترال اور کاکہ پورہ قصبوں اور ان سے ملحقہ دیہات میں دوسرے دن بھی مکمل ہڑتال رہی جس کے دوران دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت جزوی طور ر معطل رہی۔ ان علاقوں میں واقع سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج جزوی طور پر متاثر رہاجبکہ بیشتر ٹیوشن سینٹر بند رہے۔
نور تانترے کو سال 2003 ءمیں دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا جس کے بعد پوٹا عدالت نے انہیں سال 2011 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔وہ بعدازاں پیرول پر رہاہوئے لیکن انہوں نے معمول کی زندگی گذارنے
کی بجائے دوبارہ جنگجووں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ضلع کے کسی بھی علاقہ میں پابندیاں نافذ نہیں کی گئی تھیں تاہم امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری بدستور تعینات رکھی گئی ہے۔ ضلع پلوامہ میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات بدھ کو دوسرے دن بھی منقطع رہیں۔ تاہم منگل کو معطل رہنے والی ریل خدمات بدھ کی صبح بحال کی گئیں۔ ریل انتظامیہ نے مقامی انتظامیہ کی ہدایت پر منگل کو جنوبی کشمیر سے گذرنے والی ریل سروس معطل کردی تھی۔ نور ترالی کے سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کے خلاف پلوامہ بھر میں منگل کو ہڑتال کی گئی تھی۔
نور ترالی نامی جیش کمانڈر فقط چار فٹ قد کے جنگجو تھے جوجنوبی کشمیر میں سرکاری فورسز کے لئے درد سر بن کر رہ گئے تھے۔ متعدد مرتبہ فورسز کو چکمہ دیکر فرار ہونے میں کامیاب رہنے کے بعد انہیں بالآخر پیر اور منگل کی درمیانی شب کو پانپور قصبہ کے قریب سانبورہ نامی گاوں کے ایک گھر میں گھیر کر جاں بحق کردیا گیا۔ سکیورٹی اداروں کاماننا ہے کہ47 سالہ تانترے جنوبی کشمیر میں ہونے والے حالیہ حملوں میں ملوث تھے اور وہ کئی بڑے حملوں کے منصوبہ ساز اور سرغنہ تھے۔
نور تانترے کو سال 2003 ءمیں دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا جس کے بعد پوٹا عدالت نے انہیں سال 2011 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔وہ بعدازاں پیرول پر رہاہوئے لیکن انہوں نے معمول کی زندگی گذارنے کی بجائے دوبارہ جنگجووں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی۔ ریاستی پولیس کا کہنا ہے کہ تانترے کشمیر میں جیش محمد کی سربراہی کرتے تھے اور کئی معاملات میں سکیورٹی ایجنسیوں کو مطلوب تھے۔