سرینگر// جموں کشمیر میں سرگرم جنگجو مخالف فورسز نے جیش محمد تنظیم کے ڈویژنل کمانڈر اور وادی میں سرگرم معمر ترین جنگجو نورالدین تانترے عرف نور ترالی کو جاں بحق کرکے ایک بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔محض تین فٹ لمبے نورترالی نے برسوں تک ریاست کے جنگجوئیانہ محاذ سے غائب رہنے والی جیش محمد تنظیم کو سرنو منظم کرنا شروع کیا تھا اور وہ سرکاری ایجنسیوں کیلئے درد سر کے بطور ابھر رہے تھے۔
اپنے پست قد کے باوجود جنگجو بننے کیلئے مشہورجیش محمد کے سینئر ترین کمانڈر نور محمد تانترے کواپنے آبائی ضلع پلوامہ کے پانپور نامی قصبہ کے مضافات میں سانبورہ نامی بستی کے ایک گھر میں گھیر کر مار گرایاگیا ہے۔فوج کی چنار کارپس کے ایک ترجمان نے ٹویٹ کرکے بتایا کہ پلوامہ ضلع کے سانبورہ پانپور میں دیر رات ہوئی جھڑپ میں مارے گئے جنگجو کی شناخت نور محمد تانترے کے بطور ہوئی ہے۔ٹویٹ میں بتایا گیا تھا”جیش محمد کے ڈویڑنل کمانڈر نور محمد تانترے کو مار گرایا گیا،ایک ہتھیار برآمد ہوا ہے اور آپریشن ابھی جاری ہے“۔
حالانکہ انہیں دلی کی پوٹا عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی تاہم وہ فقط سال بھر قبل ضمانت پر رہا ہوگئے تھے جسکے بعد انہوں نے دوبارہ بندوق اٹھائی۔
ذرائع کے مطابق سانبورہ پانپور میں یہ جھڑپ دیر رات تب شروع ہوئی تھی کہ جب فوج اور جموں کشمیر پولس کے ایک خصوصی دستے نے جنگجووں کے ایک ٹھکانے پر چھاپہ مارا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جنگجووں کی موجودگی سے متعلق مصدقہ اطلاع ملنے پر سرکاری فورسز نے سانبورہ کو گھیرے میں لیا اور یہاں کے ایک گھر میں موجود جنگجووں کو للکارا گیا جنہوں نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔بتایا جاتا ہے کہ فورسز نے مذخورہ مکان کے اردگرد بارود بچھاکر اسے دھماکے سے اڑادیااور یوں نور محمد نامی جیش کمانڈر مارے گئے جنکی نعش بعدازاں ملبے تلے دبی ہوئی پائی گئی۔پولس کے ڈائریکٹر جنرل،ایس پی وید،نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں علاقے میں تین جنگجووں کی موجودگی کی اطلاع تھی جنکے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ سرینگر-جموں شاہراہ پر جانے والی فوجی کانوائے کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔انہوں نے کہا تھاکہ آپریشن ابھی جاری ہے اور اسکے ختم ہونے پر ہی بتایا جاسکتا ہے کہ یہاں کل کتنے جنگجو موجود تھے تاہم بعدازاں زمین بوس کئے گئے مکان کے ملبے سے جھڑپ کے دوران یہاں کسی اور جنگجو کے موجود رہنے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ایک پولس افسر کے مطابق ”ایسا لگتا ہے کہ یہاں بس ایک جنگجو موجود تھا جسے مار گرایا گیا ہے“۔
47سالہ نور محمد تانترےکے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پہلی بار2000میں جنگجو بن کر جیش محمد میں شامل ہوئے تاہم 2003میں،اسوقت کے نامور جیش کمانڈر غازی بابا کے قریبی ساتھی کے بطور، دلی میں پکڑے جانے کے بعدقریب15 سال تک دلی کی تہار جیل میں نظربند رہے ۔حالانکہ انہیں دلی کی پوٹا عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی تاہم وہ فقط سال بھر قبل ضمانت پر رہا ہوگئے تھے جسکے بعد انہوں نے دوبارہ بندوق اٹھائی۔ماہ بھر قبل انکے دوبارہ جنگجو بننے کی خبر وائرل ہوچکی تھی اور سرکاری فورسز اس بات کو لیکر ورطہ حیرت میں تھیں کہ محض تین فٹ کا قد رکھنے والے نورمحمد کس طرح موجودہ حالات میں بندوق اٹھانے پر آمادہ ہوسکے ہیں۔فورسز کے اعلیٰ افسروں کا ماننا تھا کہ نور محمد جیش محمد کو ایک خطرناک فورس ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم اپنے پست قد کی وجہ سے وہ زیادہ دیر تک سرکاری فورسز کی نظروں سے بچ نہیں سکتے ہیں۔چناچہ یہ اندازہ درست ثابت ہوا ہے اور تانترے کو دوبارہ بندوق اٹھانے کے چند ہی ماہ بعد جاں بحق کیا گیا۔
نور محمد کے مارے جانے کی خبر پھیلنے کے ساتھ ہی جنوبی کشمیر کے مختلف علاقوں میں ہڑتال ہوگئی اور کشیدگی پھیل گئی جسے دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے جنوبی کشمیر سے گذرنے والی ریل گاڑی کو روک دیا اور انٹرنیٹ کی خدمات بند کردی گئیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سخت ترین پابندیوں کے باوجود بھی ہزاروں لوگ نور ترالی کے آبائی گاو¿ں میں جمع ہوگئے یہاں تک کہ جنازہ گاہ میں جگہ کم پڑنے اور لوگوں کے دیر تک آتے رہنے کی وجہ سے انکی الگ الگ آٹھ بار نماز جنازہ پڑھی گئی۔موجودہ وقت میں معمر ترین مگر قد میں سب سے کم،تین فٹ،کے جنگجو کمانڈر کو قریب تین بجے دفن کیا گیا اور اسکے ساتھ ہی ترال کے مختلف علاقوں میں مشتعل لوگوں نے سرکاری فورسز پر سنگبازی کی۔
سرکاری ذرائع نے نورترالی کے مارے جانے کو ایک بڑی کامیابی بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مذکورہ نے جیش محمد کو سر نو منظم کردیا تھا اور گذشتہ دو یا تین ماہ کے دوران مذکورہ نے سرینگر کے ہوائی اڈے کے بغل میں واقع بی ایس ایف کے کیمپ پر ہوئے حملے سمیت اس طرح کے کئی حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر ایک پولس افسر نے ترالی کے مارے جانے کو جیش محمد کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں پوری جنگجوئیت کیلئے ایک بڑا دھچکہ قرار دیا۔