اسیرانِ تہار کے رشتہ داروں کا احتجاجی مظاہرہ

سرینگر // تہار جیل میں بند اُنکے عزیزوں پر پولس کے حالیہ تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے اسیرانِ تہار جیل کے رشتہ داروں نے ان قیدیوں کو فوری طور ریاستی جیلوں کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ان لوگوں کا،جن میں بچے اور بزرگ بھی شامل تھے،کہنا تھا کہ حالیہ واقعات کے بعد وہ جیل میں بند اپنے عزیزوں کے حوالے سے انتہائی تشویش کا شکار ہیں اور اُنہیں ان قیدیوں کو ریاستی جیلوں کو منتقل کرنے سے ہی مطمعین کیا جا سکتا ہے۔

وادی کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے درجنوں افراد نے اتوار کو یہاں کی پریس کالونی میں جمع ہوکر نئی دلی کی تہار جیل میں بند اپنے عزیزوں کی حالتِ زار سُنائی اور کہا کہ وہ انتہائی سخت حالات کے علاوہ خوفزدہ ماحول میں ہیں۔مظاہرین میں کئی نظربندوں کے بزرگ والدین شامل تھے جنہوں نے کہا کہ انکے نظربند بچوںپر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اور وہاں اُن کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔احتجاجی والدین اور نظربندوں کے دیگر رشتہ داروں نے مطالباتی نعروں والی تختیاں اُٹھارکھی تھیں جن پر ان نظربندوں کو ریاستی جیلوں میں منتقل کئے جانے اور انہیں انصاف دئے جانے کے جیسے نعرے درج تھے۔

رانچی کے ایک انجینئرنگ کالج کے طالبِ علم احتشام2012میں گھر آرہے تھے کہ اُنہیں گرفتار کر کے تہاڑ جیل پہنچایا گیا جہاں وہ ابھی تک نظربند ہیں۔

حتجاج میں شامل محمد فاروق ملک ساکن سوپور نامی ایک انجینئر نے کہا کہ اُن کے بیٹے ،احتشام فاروق ،ناکردہ گناہ کی پاداش میں پچھلے 6برسوں سے تہاڑ جیل میں مقید ہےں جہاں اُن پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ رانچی کے ایک انجینئرنگ کالج کے طالبِ علم احتشام2012میں گھر آرہے تھے کہ اُنہیں گرفتار کر کے تہاڑ جیل پہنچایا گیا جہاں وہ ابھی تک نظربند ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ احتشام کے ساتھ ایک حالیہ ملاقات کے دوران احتشام کی حالت نا قابلِ بین تھی جسے دیکھتے ہوئے سوپور کی ایک عدالت نے مذکورہ کا اسپتال میں علاج و معالجہ کرانے کا حکم دیا تھا لیکن اسپتال لیجائے جانے کے باوجود مذکورہ کو ایک بار پھر تہار جیل پہنچادیا گیا ہے۔

مظاہرین میں شامل دیگر کئی لوگوں نے بھی اپنے عزیزوں کی نظربندی کی رُلادینے والی کہانیاں سُنائیں اور بتایا کہ حالیہ ملاقاتوں کے دوران اُنہوں نے اپنے ان عزیزوں کو کتنی بدترین حالت میں پایا ہے۔واضح رہے کہ 21نومبر کو تہاڑ جیل میں 18کشمیری نظربندوں کو تامل ناڈو پولیس نے بلا وجہ لہو لہان کردیا تھا اور بعدازاں ان نظربندوں کی خون میں لت پت تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر وائرل ہوچکی تھیں۔یہ معاملہ دلی ہائی کورٹ میں زیر بحث آیا اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد عدالت عالیہ نے اس واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرانے کے احکامات صادر کئے۔

مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ عدالتی کارروائی میں طول دئے بنا اگر ان نظربندوں کو جلد رہا نہ بھی کیا جائے تاہم اُنہیں ریاستی جیلوں کو منتقل کیا جانا چاہیئے کہ جہاں وہ نہ صرف اُنکے ساتھ ملاقات کرسکتے ہیں بلکہ اُنکی حفاظت کے حوالے سے خدشات بھی دور ہوسکتے ہیں۔چناچہ ایک بزرگ احتجاجی کا کہنا تھا”حال ہی میں دنیا دیکھ چکی ہے کہ ان نظربندوں کے ساتھ کس قدر بدترین اور حیوانوں کا جیسا سلوک کیا گیا تھا اور یہ معاملہ اتنا عیان و بیان تھا کہ خود سرکاری اداروں کو ماننا پڑا کہ کشمیری نظربندوں پر بلاوجہ انتہائی تشدد کیا گیا ہے،ایسے میں ان اداروں کو سمجھ لینا چاہیئے کہ کشمیری نوجوان خطرے میں ہیں اور اگر انکا مزید نظربند رکھا جانا اتنا ہی ضروری ہے تو بھی اُنہیں سرینگر یا وادی کی کسی اور جیل کو منتقل کیا جانا چاہیئے“۔

 

 

Exit mobile version