کٹھوعہ// حکومتِ ہند کے مذاکرات کار دنیشور شرما کا علیٰحدگی پسندوں میں اپنے مشن کی اعتباریت قائم کرنا تو دور وہ خود مین اسٹریم کی سیاسی پارٹیوں کو متاثر کرنے میں بھی ناکام نظر آرہے ہیں ۔ریاست کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ مسٹر شرما کے دورے محض رسمی ہیں جبکہ اُنہوں نے پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل مشرف کے ”مشرف فارمولہ“کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر عمل ہوا ہوتا تو آج کے جموں کشمیر کی صورتحال مختلف ہوتی۔
جنرل پرویز مشرف نے جو چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا اگر اُس پر پیشرفت ہوئی ہوتی تو آج کی صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔
اتوار کو یہاں ایک تقریب کے بعد نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ ریاست کی صورتحال تشویشناک ہے اور یہاں روز افزوں خون خرابہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔اُنہوں نے کہا’ ’گزشتہ روز ایک اور(فوجی)جوان کو اغوا کر کے ہلاک کرد یا گیا ، در اندازی بڑھ گئی ہے اور حکومت خطہ میں قیام امن کے لئے پاکستان کے تئیں اپنی پالیسی مرتب کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے ، مرکز کو چاہئے کہ وہ اس سلسلہ میں ملک کو اپنے اعتماد میں لے“۔اُنہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں ہندوپاک افواج کے بیچ مسلسل ہورہی گولہ باری سے سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔
مرکزی مذاکرات کار دنیشور شرما کی تعیناتی اور اُن کے ”مشن کشمیر“کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نیشنل کانفرنس کے صدر نے اس طرح کے اقدامات میں سنجیدگی کے فقدان کا الزام لگایا۔اُنہوں سوال کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں مقرر کئے گئے رابطہ کاروں ، جن میں موجودہ گورنر این این ووہرہ بھی شامل ہیں، کی رپورٹوں کا کیا حشر ہوا؟ دنیشور شرما کے دورہ ریاست کو محض ایک رسم قرار دیتے ہوئے سابق وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ خطہ میں فقط سنجیدہ اور مخلصانہ کوششوں سے ہی امن قائم ہو سکتا ہے۔ ُانہوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے جو چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا اگر اُس پر پیشرفت ہوئی ہوتی تو آج کی صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔واضح رہے کہ مشرف کے اس فارمولہ کو بزرگ علیٰحدگی پسند راہنما سید علی شاہ گیلانی نے یکسر مسترد کردیا تھا جبکہ حکومتِ ہند نے بھی اُنہیں کوئی مثبت ردِ عمل نہیں دکھایا جسکی وجہ سے اُنکے تجویز کردہ نکات کو روبہ عمل نہیں لایا جا سکا تھا۔
نیشنل کانفرنس کے صدر نے اس طرح کے اقدامات میں سنجیدگی کے فقدان کا الزام لگایا۔اُنہوں سوال کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں مقرر کئے گئے رابطہ کاروں ، جن میں موجودہ گورنر این این ووہرہ بھی شامل ہیں، کی رپورٹوں کا کیا حشر ہوا؟
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے متعلق انکے ایک حالیہ بیان سے متعلق پوچھے جانے پر فاروق عبداللہ نے کہا” اعترافِ حقیقت سے ہی خطہ میں امن کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے “۔ اُنہوں نے کہا کہ کنٹرول لائن کو ”خطِ امن “میں تبدیل کر کے اسکے دونوں طرف بسنے والوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔اُنہوں نے اعتماد سازی کے لئے عوامی روابط کو فروغ دئے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔