ہندوارہ//(شوکت پنڈت) شمالی کشمیر کے ہفرڈہ جنگل میں فوج نے کل سے جاری بتائے جارہے ایک اینکاونٹر میں جس شخص کو جنگجو بتاکر مار گرایا ہے وہ یہاں کے ایک مقامی طالبِ علم ثابت ہوئے ہیں جنکے لواحقین نے فوج پر مذکورہ کو فرضی جھڑپ میں مار گرانے کا الزام لگایا ہے۔مذکورہ کی شناخت شاہد بشیر میر ولد بشیر احمد ساکن داریل تارتھپورہ نامی طالبِ علم کے بطور ہوئی ہے اور اُنکی لاش کے اُنکے گھر پہنچنے پر وہاں ابھی قیامت کا سماں ہے۔علاقے کے لوگ انتہائی مشتعل ہیں اور یہاں احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں۔
پولس چیف ایس پی وید نے تاہم ایک انگریزی اخبار کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
فوج نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ ہندوارہ کے ہفرڈہ جنگل میں اسکی جنگجووں کے ایک گروہ کے ساتھ جھڑپ ہوئی ہے جسکی ابتداءمیں ہی ایک جنگجو کو مار گرایا گیا ہے۔فوج نے آج یہ دعویٰ دہراتے ہوئے مقامی خبر رساں ایجنسیوں کو بتایا تھا کہ علاقے میں تین سے چار جنگجووں کے چھپے ہونے کی خبر ہے کہ جو حال ہی دراندازی کرکے یہاں پہنچے ہیں۔ایک خبر رساں ایجنسی کے این ایس نے دفاعی ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ اگرچہ فوج کو مزید جنگجووں کا ابھی تک واضح سراغ نہیں ملا ہے تاہم آج بھی گولیوں کا تبادلہ ہوا ہے اور یہاں اعلیٰ تربیت یافتہ پیرا کمانڈوز کو پہنچائے جانے کے علاوہ ہیلی کاپٹروں کو بھی گشت پر لگا دیا گیا ہے۔
تاہم ہندوارہ کے تارتھپورہ علاقہ میں شام گئے تب گویا آسمانی بجلی گری کہ جب لوگوں کو پتہ چلا کہ جنہیں جنگجو بتاکر مار گرایا گیا ہے وہ دراصل شاہد بشیر نامی ڈگری کالج ہندوارہ کے طالب علم ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ شاہد سوموار کو گھر سے بھیڑچرانے کی غرض سے جنگل گئے ہوئے تھے اور پھر واپس نہیں لوٹے۔لوگوں کا الزام ہے کہ شاہد کو دراصل فوج نے پکڑ لیا تھا اور بعدازاں اُنہیں ایک فرضی جھڑپ میں مار گرایا گیا ہے۔چناچہ شاہد کی لاش کے گاوں پہنچتے ہی یہاں قیامت کا سماں بند گیا اور شاہد کے لواحقین کے ساتھ ساتھ پورے علاقے کے لوگ ماتم کرنے لگے۔ابھی تک علاقے میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور لوگ شاہد کے قاتلوں کو پکڑ لئے جانے تک اُنکے جسدِ خاکی کو دفنانے سے انکار کر رہے ہیں۔
سرینگر میں خبررساں اداروں نے دفاعی ترجمان راجیش کالیا سے اس بارے میں معلومات لینا چاہی تھیں تاہم اُنسے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔پولس چیف ایس پی وید نے تاہم ایک انگریزی اخبار کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔