شوپیاں// جنگجوئیت کا گڈھ بن چکے شوپیاں میں ایک طالبِ علم گوہر احمد ڈار کے پُراسرار قتل کو لیکر جتنے منھ اُتنی باتیں والا معاملہ ہے ۔ایک طرف پولس اس قتل میں ملوث جنگجووں کی شناخت کر لینے کا دعویٰ کر رہی ہے تو دوسری جانب غصے سے لال پیلے ہورہے لوگ اس قتل کا الزام فوج کے سر ڈال رہے ہیں۔معاملے کو اور بھی پُراسرار بنادینے والی بات یہ کہ حزب المجاہدین نے بھی اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے سر ڈالا ہے۔
شوپیاں کے ڈگری کالج کے طالبِ علم رہےگوہر احمد ڈارساکن اُرپورہ ناگبل کی لاش اتوار کو دوبی پورہ میں حال ہی قائم کئے گئے فوجی کیمپ کے پاس ہی پائی گئی تھی۔اُنکے لواحقین کا کہنا ہے کہ اُنہیں پولس نے فون کرکے بتایا کہ ناگہ بل میں ایک میوہ باغ کے اندر گولیوں سے چھلنی لاش پڑی ہے۔گوہر کے والد عبدالرحیم ڈار کا کہنا ہے کہ اُنکے بیٹے سنیچر کی شام کو بازار سے آئس کریملانے کیلئے گھر سے گئے تھے اور رات بھر نہیں لوٹے۔وہ کہتے ہیں کہ اُنہیں فکر تو لاحق ہوگئی لیکن اُنہیں لگا کہ کسی دوست کے پاس گیا ہوگا صبح تک آجائے گا لیکن صبح انتہائی بُری خبر یہ آئی کہ گوہر کو گولی مار دی گئی ہے۔
” تفتیش کے دوران معتبر ذرائع سے شوپیان پولس کو پتہ چلا کہ گوہرکے قتل میں لشکر طیبہ سے وابستہ وسیم شاہ ساکن ہیف اور ناظم ڈار ساکن اُرِپورہ کا کلیدی رول ہے“ ۔
سوگوار خاندان کا کہنا ہے کہ گوہر ایک نہایت ہی سادہ اور شرمیلے نوجوان تھے جو کبھی کسی پنگے میں نہ پڑتے تھے۔اُنکا کہنا ہے کہ علاقے کے دیگر نوجوانوں کے برعکس گوہر کبھی بھارت مخالف احتجاجی مطاہروں وغیرہ میں بھی شریک نہ رہے اور نہ ہی اُنکی کوئی غیر معمولی حرکت یا سرگرمی تھی جسے اُنکے قتل سے جوڑ کر دیکھا جاسکتا تھا۔ حالانکہ پولس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے” تفتیش کے دوران معتبر ذرائع سے شوپیان پولس کو پتہ چلا کہ گوہرکے قتل میں لشکر طیبہ سے وابستہ وسیم شاہ ساکن ہیف اور ناظم ڈار ساکن اُرِپورہ کا کلیدی رول ہے“ ۔
تاہم گوہر کے گاوں میں لوگ اس قتل کیلئے سرکاری ایجنسیوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔گوہر کی لاش گاوں پہنچی تو یہاں کہرام مچ گیا اور لوگوں نے بڑے جذباتی انداز میں جلوسِ جنازہ اور پھر تدفین میں شرکت کی۔جلوسِ جنازہ میں شامل ایک شخص نے کہا”ایسی کوئی وجہ ہی دکھتی ہے کہ اسے مجاہد مار ڈالیں،یہ تو بڑا سیدھا سادھا سا لڑکا تھا یہ ایسا کچھ کرہی نہیں سکتا تھا کہ جسکی وجہ سے وہ(جنگجو)اسے مار دیتے،وثوق سے تو نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن ایسا ممکن ہے کہ اسے فوج یا ایس او جی نے مار دیا ہو“۔ واضح رہے کہ شوپیاں کا علاقہ ابھی لشکرِ طیبہ اور حزب المجاہدین کا گڈھ بنا ہوا ہے اور یہاں جنگجووں کو زبردست حمایت حاصل ہے۔گوہر کے ایک پڑوسی نے کہا کہ اُنہوں نے یہ سُنا ہے کہ گوہر کو کسی گاڑی میں سوار لوگ اُٹھا کر لے گئے تھے حالانکہ اس بات کی تصدیق نہ ہوسکی۔
حزب المجاہدین کے آپریشنل ترجمان برہان الدین نے سرینگر میں خبررساں ایجنسیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے اس واقعہ کیلئے ”خفیہ ایجنسیوں“کو موردِ الزام ٹھہرایا اور کہا” معصوم شہریوں کی ہلاکت میں جنگجوگروپوں کوملوث قراردینابھارتی ایجنسیو ں کاپُراناحربہ ہے“ ۔