سرینگر// جموں کشمیر میں اپوزیشن نیشنل کانفرنس نے ریاست کی پُشتینی باشندگی کے قانون کی بنیاد فراہم کرنے والی (آئینِ ہند کی)دفعہ35-Aکو لیکر مودی سرکار کی خاموشی کو مشکوک قرار دیتے ہوئے ریاستی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔نیشنل کانفرنس کا کہنا ہے کہ ایوان کا ہنگامی اجلاس بلا کر ریاست کی خصوصی پوزیشن کے دفاع کا لائحہ عمل مرتب کیا جانا چاہیئے۔پارٹی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ہند نریندر مودی کی جانب سے ریاستی وزیر اعلیٰ کو دی گئی ’یقین دہانی‘کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر مرکز واقعہ اس دفعہ کو بچانے کے حق میں ہے تو پھر اسے سپریم کورٹ میں میں بیان ِ حلفی جمع کرانا چاہئے تھا ،جہاں دفعہ370،آرٹیکل35اے اور دفعہ6کی منسوخی کے حوالے سے تین عرضیاں دائرہیں ۔
شنل کانفرنس کے کارگزار صدر اور ریاست کے سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے آرٹیکل 35-A کی منسوخی کے معاملے پر 29 اگست سے قبل جموں وکشمیر اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کرنے پر زور دیا ۔ اُنہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آرٹیکل 35-A کو منسوخ کرنے والی سوچ کو معقول اور بروقت جواب دینے کا وقت آگیا ہے ۔ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے دو ٹاک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ آرٹیکل 35-Aکی منسوخی کا معاملہ جموں ، کشمیر اور لداخ کےلئے مساوی طور اہم ہے اور اس کی منسوخی کے سنگین اور خطرناک نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں ۔
اس پورے معاملے پر وسیع تر اتفاقِ رائے پیدا کرنے اور بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے لہٰذا ایوانِ اسمبلی سے مقدس اور موثر دوسرا کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوسکتا ہے ۔
سابق وزیرِ اعلیٰ نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا کہ جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں چلینج کئے جانے کے معاملے پر مرکز کا جو ردِعمل سامنے آیا ہے وہ غیر اطمینان بخش ہے جبکہ ریاستی حکومت کے سامنے آرٹیکل 35-A کو تحفظ فراہم کرنے کےلئے عدالتِ عُظمیٰ کے 5 رُکنی بینچ کے سامنے ایک مضبوط کیس کا سامنا ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اس پورے معاملے پر وسیع تر اتفاقِ رائے پیدا کرنے اور بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے لہٰذا ایوانِ اسمبلی سے مقدس اور موثر دوسرا کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوسکتا ہے ۔ سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ خصوصی پوزیشن کے حوالے سے بی جے پی کی سربراہی والی مرکزی سرکار کے روئیے کے نتیجے میں عام لوگوں میں کافی خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہیں لہٰذا انہیں دور کرنے کے حوالے سے بحث کرنا لازمی بن چکا ہے ۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو چلینج کرنے کا معاملہ انتہائی حساس ہے لہٰذا قانون ساز اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ قانون ساز اسمبلی کو یہ قانونی اور آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ اس حساس معاملے پر اپنا فیصلہ سُنائیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے تحفظ اور دفاع کے حوالے سے ریاست کے تینوں خطوں میں یکساں رائے پائی جارہی ہے کیونکہ جموں وکشمیر کو آئینی ضمانت آئینِ ہند نے ہی دی ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ عوامی احساس و جذبات کی ترجمانی کرنے کا وقت آگیا ہے اور یہ صرف ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے ذریعے موثر طریقے سے ہوسکتی ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اُمید ہے کہ ریاستی عوام اس پورے معاملے پر پارٹی سیاست سے بالا تر ہوکر جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن و ددفاع کےلئے کھڑے ہونگے ۔
دریں اثنا پارٹی کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے کہا کہ ڈیڑھ سال تک پی ڈی پی کی سربراہی والی مخلوط سرکار نے اِس پورے معاملے پر خاموشی اختیار کی جبکہ دونوں جماعتوں کا جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے حوالے سے موقف جُداگانہ ہے ۔علی محمد ساگر نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کی ”خصوصی پوزیشن “کے دفاع میں حکمران جمات پی ڈی پی جو بھی اقدامات اُٹھاتی ہے،اپوزیشن کا بھر پور تعاﺅن فراہم ہوگا ۔