سرینگر// عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ممبرِ اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے وزیرِ اعظم مودی کی جانب سے کشمیریوں کو گلے لگانے کی خواہش کے اظہار کو ایک روایتی بیان اور بے معنیٰ کوشش قرار دیا ہے۔اُنہوں نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم الفاظ کے ساتھ کھیل کر سیاست کر رہے ہیں۔اس دوران اُنہوں نے سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ کی ”یومِ آزادی کی تقریب میں شرکت“پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ایک سال میں ایسا کیا بدلا ہے کہ عمر عبداللہ نے اب کے بائیکاٹ نہیں کیا ہے۔
پولس نے زبردستی کرتے ہوئے پارٹی کے تین کارکنوں کو زخمی کردیا ہے جن میں سے دو کو اسپتال میں بھرتی کرنا پڑا ہے۔
انجینئر رشیدکو،جنہوں نے احتجاج کے بطور آج ترنگا لہرائے جانے کے موقعہ پر سیاہ جھنڈا لہرانے کا اعلان کیا ہوا تھا،پولس نے جواہر نگر میں اُنکی سرکاری رہائش گاہ کے اندر بند کردیا تھا تاہم اُنہوں نے اپنے کئی ساتھیوں سمیت رہائش گاہ کے مرکزی پھاٹک کو زبردستی کھول کر سیاہ جھنڈے اُٹھائے احتجاجی مارچ کرنا شروع کیا۔اُنکی رہائش کے آس پاس پہلے سے تعینات کردہ پولس کی بھاری جمیعت نے تاہم انجینئر رشید کی کوشش ناکام بنائی اور اُنہیں کئی ساتھیوں سمیت گاڑیوں میں بھر کر تھانہ پولس راجباغ میں بند کردیا گیا۔عوامی اتحاد پارٹی کے ایک بیان کے مطابق پولس نے زبردستی کرتے ہوئے پارٹی کے تین کارکنوں کو زخمی کردیا ہے جن میں سے دو کو اسپتال میں بھرتی کرنا پڑا ہے۔
اپنی گرفتاری سے قبل یہاں موجود نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انجینئر رشید نے وزیرِ اعظم مودی کی لال قلعے کی فصیل سے یومِ آزادی کے موقعہ پر کی ہوئی تقریر کو الفاظ کا کھیل بتاتے ہوئے اُن پر سیاست کرنے کا الزام لگایا۔اُنہوں نے کہا” مودی جی کا کشمیریوں کو گلے لگانے کی بات کرنا نرسہما راﺅ، اٹل بہاری واجپائی، من موہن سنگھ اور دوسرے ہندوستانی لیڈروں کی طرح دلوں کو بہلانے والی باتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور در اصل نئی دلی کے پاس کشمیریوں کو دینے کیلئے کچھ بھی نہیں“۔دلچسپ ہے کہ مزاحمتی لیڈر اور حُریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے قائد مولوی عمر فاروق نے وزیرِ اعظم مودی کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔اُنہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے یہ سمجھنے کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ بات گولی اور گالی سے نہیں بنے گی۔اُنہوں نے کہا کہ اگر یہ دو چیزیں انصاف اور انسانیت سے بدل دی جائیں تو بات ضرور بن سکتی ہے۔
” مودی جی کا کشمیریوں کو گلے لگانے کی بات کرنا نرسہما راﺅ، اٹل بہاری واجپائی، من موہن سنگھ اور دوسرے ہندوستانی لیڈروں کی طرح دلوں کو بہلانے والی باتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور در اصل نئی دلی کے پاس کشمیریوں کو دینے کیلئے کچھ بھی نہیں“۔
انجینئر رشید نے مزید کہا” مودی جی کا یہ کہنا کہ صرف مٹھی بھی لوگ علیحدگی پسند ہیں توریخی حقائق کی توہین کرنے کے برابر ہیں۔ اُنہیں چاہئے کہ وہ اپنی پچھلے سال کی آج کے ہی دن کی تقریر کو یاد کریں جس میں اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ نہ صرف ہندوستان والے قبضے جموں کشمیر کے لوگ بلکہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لوگ بھی ہندوستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں“۔ اُنہوں نے حد بندی لکیر کی دونوںجانب رائے شماری کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا”اگر مودی جی کو اپنے دعوﺅں پر بھروسہ ہے تو اُنہیں رائے شماری کرانے کیلئے تیار ہوجانا چاہیئے“۔
انجینئر رشید نے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس سربراہ عمر عبداللہ پر غیر مستقل مزاج ہونے اور دوہرے معیار اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے اُن سے پوچھا کہ ایک سال میں ایسی کیا تبدیلی آئی ہے کہ آج وہ یومِ آزادی کی تقریب میں شریک ہوئے جبکہ گذشتہ سال اُنہوں نے بائیکاٹ کردیا تھا۔ انجینئر رشید نے کہا ”حقیقت یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس ہمیشہ سے ہی دوہرے معیار کا شکار رہی ہے ۔ گذشتہ برس عوامی مزاحمت کے دباﺅ میں این سی قیادت نے خود کو عوام کے ساتھ وابسطہ کرنے کا ڈھونگ رچا یا اور اس سال آزادی پسند قیادت کو مشکلات کے بھنور میں پاکر اب یہ جماعت نئی دلی کے اشاروں پر ناچ رہی ہے “۔اُنہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ عمر عبداللہ نے، ایک ایسے موقعہ پر جب نئی دلی وہاں سے کچھ دینے کی بجائے ریاست کے لوگوں سے وہ سب کچھ چھیننے پر تُلی ہوئی ہے جو انہیں خودآئین ِ ہندکے مطابق حاصل ہے، یہ کہکر کہ حریت قیادت کو دفعہ 35-Aمیں مداخلت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اتحاد کی کوششوں کو شدید زک پہنچایاہے۔
دلچسپ ہے کہ مزاحمتی لیڈر اور حُریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے قائد مولوی عمر فاروق نے وزیرِ اعظم مودی کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔
اُنہوں نے عمر عبداللہ کو یہ بات نہ بھولنے کیلئے کہا کہ کشمیریوں کی غالب اکثریت نیشنل کانفرنس کو تمام مصیبتوں کی جڑ مانتی ہے ۔ انجینئر رشید نے کہا” 35-Aپر ٹھیکہ داری کرنے سے پہلے عمر عبداللہ کو سمجھنا چاہئے کہ اگر اُن کی جماعت نے 1996میں فوج کے بل پر منعقد ہونے والے نام نہاد انتخابات میں شرکت کرکے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا نہ گھونپا ہوتا تو تاریخ کا رخ کچھ اور ہوتا۔ اس کے بعد اٹانومی قرارداد کا حشر ، اُس پر این سی کا این ڈی اے کے آگے سرینڈر ، افضل گورو کی پھانسی کیلئے اپنی آمادگی اور پھر اس کی لاش تک واپس نہ لانا ایسے شرمناک واقعات ہیں جن سے حوصلہ پاکر اب نئی دلی اور اس کے چانٹے کشمیریوں کو حاصل خصوصی درجات پر کاری ضرب لگانے کیلئے سپریم کورٹ کا سہارا لے رہے ہیں“۔انجینئر رشید نے محبوبہ مفتی کی تقریر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں دفعہ35-Aکی باتیں کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے کیونکہ اُنہوں نے بی جے پی اور سنگ پریوار کو ریاست کے تشخص اور خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کیلئے اپنی خدمات رضا کارانہ طور پر پیش کیں۔