اس وقت جب جموں کشمیر کو” خصوصی پوزیشن “دلانے والی آئینِ ہند کی دفعہ370اور یہاں کی پُشتینی باشندگی سے متعلق دفعہ35-Aکو سپریم کورٹ میں چلینج کئے جانے کو لیکر ریاست میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے حکمران جماعت بی جے پی نے ان دونوں دفعات کو دفع کرنے کی بات کی ہے۔کشمیریوں کیلئے عقیدے کے جیسی اہمیت رکھنے والی ان دفعات کو ریاست کی تعمیروترقی میں رُکاوٹ بتاتے ہوئے پی ڈی پی کی اتحادی بی جے پی نے کہا ہے کہ ان دفعات کو الوداع کہنے کا وقت آگیا ہے۔
بھاجپا کے ایک ترجمان پروفیسر وریندر گپتا کا دعویٰ ہے کہ دونوںدفعات ریاستی عوام کیلئے فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہورہے اور ریاست کی ترقی اور تعمیر میں رُکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔اُنہوں نے کہاہے ”ریاست کی موجودہ صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ دفعہ370سے علیحدگی پسند مزاج اور ذہن کی تخلیق ہوئی ہے اوراس سے علیٰحدگی پسند جذبات اُبھرے ہیں“۔پروفیسر وریندر گپتا نے کہاہے کہ اس قانون نے جموں کشمیر کے”حل شدہ“ مسئلے کو زندہ رکھاہے اورعلیٰحدگی پسندوں اور بیرونی طاقتوں کو اندرونی معاملات میں دخل اندازی و ملک کی سالمیت کو چیلنج کرنے کیلئے حوصلہ دیا ہے۔ بی جے پی ترجمان کادعویٰ ہے کہ دفعہ370 کی وجہ سے وادی کے لوگوں میں احساسِ بے گانگی بڑھ گیا ہے اور وہ ملک کی مین اسٹریم سے دورہوگئے ہیں۔
”ریاست کی موجودہ صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ دفعہ370سے علیحدگی پسند مزاج اور ذہن کی تخلیق ہوئی ہے اوراس سے علیٰحدگی پسند جذبات اُبھرے ہیں“۔
پروفیسر گُپتا کا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے کہ جب مذکورہ دونوں دفعات کو سپریم کورٹ میں چلینج کئے جانے کی وجہ سے ریاست،با الخصوص وادی،میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور علیٰحدگی پسندوں کے علاوہ مین اسٹریم کی اپوزیشن نے بھی ان دفعات کی تنسیخ کی مخالفت میں کسی بھی حد تک جانے کی دھمکی دی ہوئی ہے۔
بھاجپا ترجمان نے کشمیری قیادت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ُانہوں نے ” اپنے ذاتی سیاسی مفادات کیلئے“ دفعہ370کو ہمیشہ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے جذبات کو اُبھاراہے۔اُنہوں نے مزیدکہا ہے کہ حکومتِ ہند کی طرف سے بڑے اور جامع پیمانے پر فنڈس کی دستیابی کے باوجود ریاستِ جموں کشمیر اپنی اقتصادی استحکامت بنائے رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے اورریاست کئی ایک شعبوں میں پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ رہی ہے۔