دفعہ35-A کو لیکر سیاست تیز،یک نفری ”پارٹیاں“سرگرم

سرینگر// جموں کشمیر کو خصوصی پوزیشن دلانے والی آئینِ ہند کی دفعہ370اور ریاست کی پُشتینی باشندگی کی وضاحت کرنے والی دفعہ 35-Aکو سپریم کورٹ میں چلینج کئے جانے سے پیدا شدہ صورتحال میں ریاست کا سیاسی ماحول گرما گیا ہے۔وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کے گزشتہ رات اپنے حریف فاروق عبداللہ کے گھر جاکر اُنسے مشورہ کرنے کے بعد آج اپوزیشن کے کئی لوگ وزیرِ اعلیٰ کے یہاں حاضر ہوئے اور جانبین نے ان دونوں دفعات کی ممکنہ تنسیخ اور انکی حفاظت کئے جانے کے امورات پر گوروخوض کیا۔

محبوبہ مفتی گزشتہ رات فاروق عبداللہ کے ساتھ مشورہ کر آئی تھیں اور آج صبح حزب اختلاف کے مزید کئی لیڈران نے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ان کی گپکار رہائش گاہ پر ملاقات کی جن میں سی پی آئی ایم کے ریاستی سیکریٹری محمد یوسف تاریگامی، پی ڈی ایف چیرمین حکیم محمد یاسین اور ڈیموکریٹک پارٹی نیشنلسٹ کے سربراہ غلام حسن میر شامل ہیں۔قابل ذکر ہے کہ یہ تینوں لیڈران دفعہ35Aکے معاملے پر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی طرف سے طلب کئے گئے اپوزیشن پارٹیوں کے اجلاس میں بھی شامل تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ ملاقات کے دوران دفعہ35Aکی منسوخی کے ریاست کے اندر اور مرکز کے ساتھ ریاست کے تعلقات پر ممکنہ سنگین اثرات پر خیالات کا تبادلہ کیا گیا اور اس سلسلے میں ایک مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

”ہم نے وزیر اعلیٰ پر واضح کردیا کہ یہ ایک انتہائی نازک مسئلہ ہے اور دفعہ35Aکی منسوخی ریاست کے ساتھ ساتھ پورے ملک کےلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، حکومت کو اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلئے مرکزی سرکار اور سپریم کورٹ میں ایک موثر کردار ادا کرتے ہوئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لانے چاہئے“۔

ذرائع نے بتایا کہ اپوزیشن لیڈران نے وزیر اعلیٰ کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ ریاست کے سینئر سیاسی لیڈران پر مشتمل وفد وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کرکے انہیں دفعہ35Aکی منسوخی کے منفی اثرات سے آگاہ کرے۔محمد یوسف تاریگامی نے ملاقات کے بارے میں بتایا”ہم نے وزیر اعلیٰ پر واضح کردیا کہ یہ ایک انتہائی نازک مسئلہ ہے اور دفعہ35Aکی منسوخی ریاست کے ساتھ ساتھ پورے ملک کےلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، حکومت کو اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلئے مرکزی سرکار اور سپریم کورٹ میں ایک موثر کردار ادا کرتے ہوئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لانے چاہئے“۔اپوزیشن لیڈران نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ اس معاملے پر جموں ، کشمیر اور لداخ کے دانشور، سول سوسائٹی اور دیگر ہم خیال لوگوں کو ایک جٹ ہونا چاہئے کیونکہ دفعہ کی منسوخی تمام خطوں پر اثر انداز ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے کسی بھی اقدام کے ریاست اور ملک میں سنگین نتائج برآمد ہونگے ، لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی نظریات سے بالاتر ہوکر دفعہ35Aکی منسوخی یا اس کو کمزور کرنے کے خلاف ایک ہوکر صدائے احتجاج بلند کرنی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ جمہوری اقدار میں یقین رکھنے والے لوگوں کو اس اقدام کے ممکنہ اثرات کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہئے۔ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ نے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈران کو یقین دلایا کہ حکومت دفعہ35Aکے تحفظ کو یقینی بنانے کےلئے ہر سطح اور ہر محاذ پر اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لارہی ہے۔

Exit mobile version