سرینگر// ایسے میں کہ جب ریاست کی سٹیٹ سبجکٹ کے قانون سے متعلق اسے خصوصی پوزیشن دلانے والی آئینِ ہند کی دفعہ370کو بھی سپریم کورٹ میں چلینج ہوا ہے اور ان دونوں دفعات کی تنسیخ کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں،وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے حریف فاروق عبداللہ کے دروازے پر دستک دیکر سب کو حیران کردیا ہے۔محبوبہ مفتی کے اس ”غیر روایتی“اقدام کو لیکر سیاسی گلیاروں میں کئی اُمیدیں اور اقدامات زیرِ بحث آگئے ہیں اور بعض مبصرین کے مطابق اس اقدام سے اُنہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔
بعض مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ محبوبہ مفتی نے فاروق عبداللہ کے یہاں جاکر ایک طرح سے بھاجپا کو یہ پیغام پہنچانا چاہا ہے کہ اُن(محبوبہ)کے پاس کُرسی پر بنے رہنے کے اور بھی راستے دستیاب ہیں لہٰذا اُنہیں بہت زیادہ مجبور نہ سمجھا جائے۔
وزیرِ اعلیٰ گذشتہ شام ساڑھے چھ بجے کے قریب اُنکی سرکاری رہائش گاہ کے پڑوس میں سابق وزیرِ اعلیٰ فاروق عبداللہ کے دروازے پر دستک دی اور اسے اپنے لئے وا پایا۔ذرائع کے مطابق فاروق عبداللہ نے وزیرِ اعلیٰ کو گرمجوشی سے لیا اور دونوں کے درمیان گھنٹے بھر کی ملاقات ہوئی۔یہ ملاقات سپریم کورٹ میں ریاست کی پُشتینی باشندگی سے متعلق آئین کی دفعہ35-Aکو چلینج کئے جانے اور اسکے ردِ عمل میں اپوزیشن کی جماعتوں کے فاروق عبداللہ کی قیادت میں متحد ہونے کے اعلان کے ایک دن بعد ہوئی ہے۔فاروق عبداللہ و دیگراں نے ریاست کی خصوصی پوزیشن یا اس سے متعلق کسی بھی چیز کے ساتھ چھیڑ خوانی کئے جانے کا ڈھٹ کر مقابلہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے نہ صرف مرکزی سرکار کو خبردار کیا ہے بلکہ اُنہوں نے خود وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کو بھی ہوش کے ناخن لینے اور مرکز کی کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے۔
فاروق عبداللہ کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور پارٹی کے کارگذار صدر فرزند عمر عبداللہ نے اس ملاقات کے حوالے سے ایک مختصر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نیشنل کانفرنس کے صدر سے ملاقی ہوئی ہیں۔اُنہوں نے تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اچانک اور غیر متوقع اس ملاقات میںدفعہ35-Aاور370کے دفاع سے متعلق معاملات پر غوروخوض ہوا اور وزیرِ اعلیٰ نے سابق وزیرِ اعلیٰ سے اُنکے تجربے کی بنیاد پر اور اپوزیشن لیڈر کی حیثت سے مشورہ مانگا۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات کے دوران اگرچہ دیگر کئی امورات بھی زیرِ تذکرہ رہے تاہم بنیادی طور ملاقات کا لُبِ لُباب یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے راستے ریاست کی خصوصی پوزیشن پر ہورہے حملوں کا توڑ کس طرح کیا جانا چاہیئے اور ریاست کے پاس کیا کیا امکانات موجود ہیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں مذکورہ بالا دونوں دفعات کو چلینج کرنے کیلئے الگ الگ عرضیاں دائر ہوئی ہیں جنہیں عدالت نے سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے مرکزی سرکار سے چار ہفتوں کے اندر اندر اپنا نکتہ نظر رکھنے کیلئے کہا ہے۔
”ہم لوگوں کو ہر سہولت دینے کیلئے کوشاں ہیں لیکن اُسکیلئے امن ضروری ہے۔ہمیں پہلے 1947میں ملی خصوصی پوزیشن کا تحفظ کرنا ہوگا اور اسکے بعد ہی ہم مزید کا مطالبہ کر سکتے ہیں“۔
معلوم ہوا ہے کہ فاروق عبداللہ نے محبوبہ کو کئی مشورے دیتے ہوئے اُنہیں اس حوالے سے مشروط حمایت کی پیشکش بھی کی اور اُنہیں دیگر ہم خیال افراد سے بھی ملنے کیلئے کہا۔بتایا جاتا ہے کہ سابق وزیرِ اعلیٰ نے محبوبہ مفتی کیلئے مستعفی ہونے کا اپنا مشورہ دہرایا اور اُنہیں کہا کہ اگر مرکز نے ریاست کی آئینی حیثیت کو چلینج کرنے والی مہم جوئی نہ روکی تو پھر اُنہیں کُرسی چھوڑ دینی چاہیئے۔تاہم ملاقات کے دوران باہمی مشورے کے ساتھ کوئی بات طے بھی پائی ہے یا نہیں اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ معلوم نہیں ہو پایا ہے تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ فاروق عبداللہ کے یہاں جاکر محبوبہ مفتی نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ایسا سوچنے والوں کا کہنا ہے کہ محبوبہ نے ،جوعوامی عدالت میں اقتدار کیلئے فرقہ پرست بھاجپا کے سامنے سرنڈر کرکے ریاستی مفادات کا سودا کرنے کے الزامات سے جھوج رہی ہیں،اپنے کڑے حریف کے دروازے پر جاکر یہ تاثر دینا چاہا ہے کہ وہ ریاست کے مفادات کیلئے اپنی انا قربان کرنے پر آمادہ ہیں۔ان مبصرین کا کہنا ہے کہ اس ملاقات سے محبوبہ مفتی نے ایک طرف فاروق عبداللہ کی کسی حد تک ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری جانب اُنہوں نے ،ریاست کی آئینی حیثیت پر کوئی اُفتاد پڑنے کی صورت میں،یہ کہنے کا امکان باقی رکھا ہے کہ اُنہوں نے اپوزیشن کو بھر وقت مشورے میں لیا تھا۔
بعض مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ محبوبہ مفتی نے فاروق عبداللہ کے یہاں جاکر ایک طرح سے بھاجپا کو یہ پیغام پہنچانا چاہا ہے کہ اُن(محبوبہ)کے پاس کُرسی پر بنے رہنے کے اور بھی راستے دستیاب ہیں لہٰذا اُنہیں بہت زیادہ مجبور نہ سمجھا جائے۔واضح رہے کہ نیشنل کانفرنس نے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کو بھاجپا کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کی صورت میں اسے حکومت بنانے کیلئے حمایت کی پیشکش کی تھی حالانکہ محبوبہ کے والد اور پھر اُنکے انتقال کے بعد اُنہوں نے بھاجپا کو ترجیح دی۔
اس سے قبل محبوبہ مفتی نے بیروہ بڈگام کے کئی علاقوں کا دورہ کیا اور کئی ترقیاتی منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھا اور کئی کا افتتاح کرنے کے موقعہ پر بولتے ہوئے کہا”ہم لوگوں کو ہر سہولت دینے کیلئے کوشاں ہیں لیکن اُسکیلئے امن ضروری ہے۔ہمیں پہلے 1947میں ملی خصوصی پوزیشن کا تحفظ کرنا ہوگا اور اسکے بعد ہی ہم مزید کا مطالبہ کر سکتے ہیں“۔دفعہ35-A کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا”میں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کروں گی کہ (اگر اس دفعہ کو منسوخ کیا گیا)ریاست میں کوئی قومی جھنڈا نہیں اُٹھائے گا،میں یہ بات واضھ کرنا چاہتی ہوں“۔