پہلگام میں سرکاری اسکول پر فوج کا دھاوا،وندے ماترم پڑھنے کی ہدایت

ایک کالج کے باہر فورسز کے جماو کا فائل فوٹو

ینیر  پہلگام// سرینگر کے مضافات میں ایک اسکول میں داخل ہوکر عملے اور طلباءاور اساتذہ کو حراساں کرنے کے ہفتے بھر بعد آج جنوبی کشمیر کے پہلگام علاقہ میں فوج پر اسی طرح کا ایک اور الزام لگا ہے۔یہاں کے ایک سرکاری اسکول کے عملہ و طلباءنے فوج پر اسکول میں گھس کر اُنہیں ”وندے ماترم“کے نعرے لگانے کیلئے مجبور کرنے کا الزام لگایا ہے۔اسکول کے عملہ نے الزام لگایا ہے کہ فوجی اہلکاروں نے نہ صرف اُنہیں حراساں کیا بلکہ اُنکی ہدایات نہ ماننے پر ہیڈماسٹر کو گھسیٹ کر اسکول سے باہر نکالا گیا۔

”کلاس ورک معمول کی طرح جاری تھا کہ جب فوجی اہلکار اچانک ہی اسکول میں گھس آئے،وہ اجازت کے بغیر آئے تھے اور اندر آتے ہی وہ دھاڑنے لگے اور ہم سب کو ڈرانے لگے“۔

ینیر کھنہ بل-پہلگام سڑکاور بجبہاڑہ- پہلگام کی دو متوازی سڑکوں کے درمیان دریائے لدر کے کنارے پر آباد ایک معروف گاوں ہے کہ پہلگام سے8 کلومیٹر پہلے واقع یہ گاوں گذشتہ چند برسوں کے دوران بذاتِ خود ایک سیاحتی مرکز کے بطور اُبھرا ہے۔سیر سپاٹے کیلئے پہلگام جانے والے اکثر لوگ ینیر میں رُک کر یہاں کچھ وقت گذارتے ہیں جبکہ یہاں ایک بڑا پُل بھی بنایا گیا ہے جس سے دچھنی پورہ اور کھورپورہ کا رابطہ بنتا ہے۔یہاں کے گورنمنٹ مڈل اسکول کے عملہ اور طلباءنے الزام لگایا ہے کہ فوج کی3 آر آر کے کئی اہلکار کسی اجازت کے بغیر انتہائی غصے کی حالت میں اسکول میں داخل ہوگئے اور اُنہوں نے اساتذہ کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی خوفزدہ کیا۔اسکول کے ایک اُستاد نے ،ظاہر وجوہات کیلئے اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا ”کلاس ورک معمول کی طرح جاری تھا کہ جب فوجی اہلکار اچانک ہی اسکول میں گھس آئے،وہ اجازت کے بغیر آئے تھے اور اندر آتے ہی وہ دھاڑنے لگے اور ہم سب کو ڈرانے لگے“۔

یہ بھی پڑھیئے ایچ ایم ٹی میں فوج کا اسکول پر دھاوا،طلباءپر تشددکا الزام

مذکورہ اُستاد نے بتایا کہ یہ فوجی کارروائی بلا اشتعال بھی تھی اور سمجھ سے باہر بھی تاہم اُنہوں نے کہا کہ بعض فوجی اہلکار اسکول کی باہری دیواروں پر حزب کمانڈر بُرہان وانی کا نام لکھا ہونے اور ”آزادی“کے حق میں نعرے لکھے ہونے پر اعتراض جتارہے تھے اور بعض اہلکار کچھ بتائے بغیر ہی رعب جھاڑ رہے تھے۔معلوم ہوا ہے کہ اس موقعہ پر یہاں کے اساتذہ سے زیادہ چھوٹے بچے بہت ڈر گئے اور اُن میں سے کئی ایک خوفزدہ ہوکر چلانے بھی لگے۔ایک اور اُستاد نے بتایا”جب ہیڈ ماسٹر صاحب،جنکا نام غلام نبی میر معلوم ہوا ہے،نے فوجی اہلکاروں سے یوں اسکول میں گھسنے کے بارے میں کچھ کہنا چاہا تو اُنہوں نے اُنکے ساتھ بدتمیزی کی اور اُنہیں ایک طرح سے گھسیٹ کر باہر نکالا“۔اُنہوں نے کہا کہ فوجی اہلکاروں کو بتایاگیا تھا کہ اسکول کی دیواروں پر مقامی لوگوں یا کسی اور نے کیا لکھا ہے اسکے بارے میں اسکول کے عملہ کو کچھ معلوم نہیں ہے تاہم وہ اُنہوں نے ایک نہیں سُنی۔اُنہوں نے کہا کہ ہیڈ ماسٹر غلام نبی میر نے یہ واقعہ متعلقہ زونل ایجوکیشن افسراور اساتذہ کی تنظیم ٹیچرس فورم کے قائدین کی نوٹس میں لایا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ نا معلوم وجوہات کیلئے مشتعل فوجی اہلکاروں نے اساتذہ اور طلباءکو ”وندے ماترم“کے متنازعہ نعرے لگانے کی ہدایت دی تاہم وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے جس سے ان اہلکاروں کو مزید غصہ آیا اور وہ پورے اسکول کو مزید ڈرانے دھمکانے لگ گئے۔سرینگر میں فوج کے ایک ترجمان نے اس واقعہ کے بارے میں کچھ جاننے سے انکار کرتے ہوئے تاہم کہا کہ وہ اس بارے میں پتہ کریںگے۔

یکم اگست کو حسینی پبلک اسکینڈری اسکول کے اساتذہ نے شکایت کرتے ہوئے کہا تھاکہ ایک فوجی پارٹی نے اسکول پر دھاوا بولکر طلباءکو حراساں کیا اور پھر اساتذہ اور دیگر عملہ کے ساتھ بد تمیزی کی۔

دلچسپ ہے کہ یہ واقعہ سرینگر کے مضافات میں ایچ ایم ٹی کے ایک علاقہ میں ایک فوجی پارٹی کے اسکول میں گھُس کر یہاں خوف و حراس پھیلانے کے واقعہ کے ہفتہ بھر بعد پیش آیا ہے۔یکم اگست کو حسینی پبلک اسکینڈری اسکول کے اساتذہ نے شکایت کرتے ہوئے کہا تھاکہ ایک فوجی پارٹی نے اسکول پر دھاوا بولکر طلباءکو حراساں کیا اور پھر اساتذہ اور دیگر عملہ کے ساتھ بد تمیزی کی۔اس سے ہفتہ بھر قبل گاندربل ضلع کے پولس تھانہ گنڈ میں فوجی پارٹی کے گھس کر یہاں ایک افسر سمیت کئی پولس والوں کی مارپیٹ کرکے انہیں زخمی کرنے کا واقعہ پیش آیاتھا۔

9اپریل کو سرینگر-بڈگام پارلیمانی نشست کیلئے ہوئے انتخابات کے دن فوج نے فاروق احمد ڈار نامی ایک نوجوان کو ایک جیپ کے بونٹ پر بٹھاکر رسیوں سے باندھ دیا تھا اور انہیں انسانی ڈھال کے بطور استعمال کیا گیا تھا۔اس واقعہ کی ویڈیو کے انٹرنیٹ پر وائرل ہوجانے سے فوج کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم خود فوج نے اس کام کیلئے ذمہ دار میجر لیتل گگوئی کو اعزاز سے نوازا تھا جسکے بعد سے فوج پر زیادتیوں کے مزید الزامات لگتے آرہے ہیں۔بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ 9اپریل کے واقعہ میں فوج کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود بھی ملزم افسر کو اعزاز دئے جانے سے فوج کی ہمت بڑھ گئی ہے اور وہ جوابدہی کے ڈر سے آزاد ہوگئی ہے اور اسی لئے عام لوگوں پر زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوتے دیکھا جارہا ہے۔

 

Exit mobile version