خبردار! آپ کے فون میں کسی جنگجو کی تصویر تو نہیں ہے؟

سرینگر // جنگجووں کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں کے بڑھتے ہوئے استعمال اور روز نئی تصاویر اور ویڈیوز جاری کئے جانے کے بعد سرکاری فورسز نے جنوبی کشمیر میں عام لوگوں کی حراسانی کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔یہاں لوگوں سے اُنکے فون لیکر اُنہیں اچھے سے کھنگالا جاتا ہے اور کسی جنگجو کی تصویر یا اس طرح کی کوئی اور چیز دیکھے جانے پر فون کی مالک کی تذلیل کرنے کے علاوہ اُنکی پٹائی بھی کی جاتی ہے۔سرکاری فورسز کی اس کارروائی کی وجہ سے لوگوں میں خوف تو ہے ہی ساتھ ہی اُنکی نجی زندگی بھی متاثر ہورہی ہے۔

’’فورسز اہلکاروں نے جنگجووں کے جنازے کی تصویر دیکھی جس سے اُنکو کافی غصہ آیا اور مجھے سائڈ میں رکھا اور بعد میں میری قمیض اُتار دی اور پھر میری مارپیٹ کی گئی“۔

چناچہ پرائیویسی کسی بھی سماج کے لوگوں کا ایک بنیادی حق ہے اور غالباََ اسی وجہ سے پولس اور دیگر ایجنسیوں کے حکام عام لوگوں کے فون لیکر اُن میں جھانکنے سے انکاری ہیں تاہم سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر وائرل ہوچکیں کئی ویڈیوز میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے فون لیکر اُن میں موجود مواد کی جانچ کی جاتی ہے اور پھر’’قابلِ اعتراض“ چیزیں پانے کی صورت میں اُنکی مار پیٹ کی جاتی ہے۔

جنوبی کشمیر میں حا ہی ایسے درجنوں واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے ایک کولگام کے محمد ندیم کا ہےکہ جنہیں سرینگر آتے ہوئے اونتی پورہ میں اپنے فون نے زبردست پٹوادیا۔ 2جولائی کو موٹر بائیک پر سواروہ سرینگر آرہے تھے اور اونتی پورہ کےنزدیک سرکاری فورسز نے اُنہیں روکااور اُنسے اُنکا فون مانگا گیا۔ ندیم نے نئی دلی کی ایک خبر رساں ایجنسی کو بتایا ہے کہ فورسز اہلکاروں نے فون کی فوٹواور ویڈو گیلری کو دیکھنے کے علاوہ وٹس ایپ پیغامات بھی دیکھ لئے۔ ندیم نے کہاہے’’فورسز اہلکاروں نے جنگجووں کے جنازے کی تصویر دیکھی جس سے اُنکو کافی غصہ آیا اور مجھے سائڈ میں رکھا اور بعد میں میری قمیض اُتار دی اور پھر میری مارپیٹ کی گئی“۔ 30سالہ ندیم نےکہا ہے کہ اس واقعہ سے قبل وہ کوکرناگ علاقہ میں لشکرِ طیبہ کے معروف کمانڈر بشیر لشکری ،جو سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے گئے تھے،کے جنازے میں شریک ہوئے تھے اور اُنہوں نے کئی تصاویر کھینچی تھیں جن میں لشکری کی میت کے علاوہ پاکستانی پرچم دکھائی دیتے تھے۔ ندیم کا کہنا ہے’’مذکورہ فورسز اہلکار نے مجھے چھڑی اور بندوق کے بٹھوں سے مارا“۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل(ڈی آئی جی) جنوبی کشمیر ایس پی پانی نےاُنسے پوچھے جانے پر ایسے واقعات کے بارے میں علمیت رکھنے سے انکار کردیااور بتایاکہ اگر ایسے واقعات ہوتے ہیں تواس کی شکایت پولیس سے کی جائے تاکہ ضروری کارروائی کی جاسکے ۔اے این آئی سے بات کرتے ہوئےاُن کاکہناتھاکہ ‘‘یہ پولیس کی کوئی عام پریکٹس نہیں ہے“۔ اُنہوں نے کہا ہے ’’میں نے خود ایسے واقعات نہیں دیکھے ،لیکن اگر کوئی یہ جانتاہے کہ ایسے واقعات ہوتے ہیں تواسے پولیس کے پاس آناچاہئے اور شکایت کرنی چاہئے ۔میں یہ جانے بغیر، کہ کس کا فون چیک کیاگیاہے اور کس نے چیک کیاہے ، اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا“ ۔

بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری ایجنسیوں کو یہ اختیار یا حق بھی ہے کہ وہ عام لوگوں کی پرائیویسی یا اُنکی نجی زندگی میں اس حد تک مداخلت کر یں کہ اُنکے فون میں موجود مواد تک رسائی حاصل کی جائے۔ سپریم کورٹ کے وکیل اور سائبر قانون کے ماہر پون ڈگل نفی میں جواب دیتے ہیں۔

اس سال مارچ میں جموں کشمیر پولیس نےایسے دس ہزار فیس بُک پروفائل ٹریس کرنے کا دعویٰ کیا تھا کہ جنہیں اس کے مطابق وادی میں مزاحمتی سرگرمیوں کیلئے پاکستان سے چلایا جاتا تھا۔پولس کا دعویٰ تھا کہ مختلف جنگجو تنظیمیں لگ بھگ تین سو وٹس ایپ گروپ کنٹرول کرتے ہیں ۔ اس کے بعد پولیس نے آن لائن سرگرمیوں میں اضافہ کردیاتھا۔

بائیس سالہ مصدق امین ،جو ڈگری کالج پلوامہ کے طالبعلم ہیں ،بھی پولس والوں کی نئی مہم کانشانہ بنے ہیں ۔امین کاکہناہے کہ پولیس والوں کے ایک گروپ نے اُنہیں روکا اور اُن سےفون چھین کر اسکی جانچ شروع کردی۔اُنہوں نے کہاکہ پولس والے دس منٹ تک اُن کا فون چیک کرتے رہے ۔وہ کہتے ہیں’’مجھےیقین تھاکہ انہیں ایسا کچھ نہیں ملے گالیکن جب میں نے دیکھا کہ ان میں سے دو(پولس والے)لاٹھیاں لیکر غصے سے آگے بڑھے تومیں حیران ہوگیا۔اُ نہوں نے میرا وٹس ایپ دیکھا اور ایک گروپ جس میں مجھے کسی نے شامل کیاہوا تھا، کے بارے میں پوچھا ،اس گروپ کی پروفائل پکچر(حزب کمانڈر)بُرہان (وانی)کی تصویر تھی“۔ مذکورہ کالج طالبعلم نے کہاکہ اُنہوں نے پولس کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ خالص ایک نیوز گروپ ہے جو ان کا ایک واقف کار چلارہاہے اور اس میں گاوں کے کئی لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی شامل کئے گئے ہیں تاہم اُنکی ایک نہ سُنی گئی اور اُنہیں اس حد تک پیٹا گیا کہ اُنکا جسم لہولہان ہوگیا۔

’’مجھےیقین تھاکہ انہیں ایسا کچھ نہیں ملے گالیکن جب میں نے دیکھا کہ ان میں سے دو(پولس والے)لاٹھیاں لیکر غصے سے آگے بڑھے تومیں حیران ہوگیا۔اُ نہوں نے میرا وٹس ایپ دیکھا اور ایک گروپ جس میں مجھے کسی نے شامل کیاہوا تھا، کے بارے میں پوچھا ،اس گروپ کی پروفائل پکچر(حزب کمانڈر)بُرہان (وانی)کی تصویر تھی“۔

حزب المجاہدین کے آئکونک کمانڈر بُرہان وانی کے گزشتہ برس جولائی میں مارے جانے کے بعد پولس کی طرف سے کائونٹر انسرجنسی آپریشن میں جتنی شدت آئی ہےاُتنا ہی پولس یا دیگر سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے جنگجووں کی آخری رسومات میں لوگوں کی شرکت بھی بڑھی ہے۔اس دوران نہ صرف یہ کہ جنگجووں کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے اور وہ روز ہی اپنی نئی تصاویر اور ویڈیوز جاری کرنے لگے ہیں بلکہ عام نوجوان بھی اس طرح کی تصاویر وغیرہ کو سینکڑوں بلکہ ہزاروں بار شئیر کرتے ہیں۔

کیا لوگوں کے فون لیکر اُنکی جانچ کرنے سے سرکاری ایجنسیاں جموں کشمیر کے نوجوانوں میں جنگجوئیت کی طرف بڑھتے ہوئے میلان کو روک سکتی ہیں یہ سوال ہے ۔لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری ایجنسیوں کو یہ اختیار یا حق بھی ہے کہ وہ عام لوگوں کی پرائیویسی یا اُنکی نجی زندگی میں اس حد تک مداخلت کر یں کہ اُنکے فون میں موجود مواد تک رسائی حاصل کی جائے۔ سپریم کورٹ کے وکیل اور سائبر قانون کے ماہر پون ڈگل نفی میں جواب دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ نہیں کیونکہ یہ پریکٹس شہریوں کی پرائیویسی سے کھلواڑ ہے “۔

 

Exit mobile version