حاجن// امرگڈھ سوپور میں کل صبح فوج کے ساتھ ہوئی ایک مڈبھیڑ میں مارے گئے تین میں سے ایک جنگجو،عابد احمد میر، کا تعلق حاجن سے تھا اور اُنہوں نے محض ڈیڑھ ماہ پہلے بندوق اُٹھائی تھی۔عابد مرکزی سرکار کی جانب سے چلائے جارہے نامور اسکول جواہر نوادیا ودالیہ کے ایک ذہین اور ہونہار طالبِ علم رہے ہیں۔
ادھیڑ عمر کے ان صاحب نے ایک دلچسپ بات کہی”مرکزی سرکار نے شائد اسی لئے اُسے پڑھایا تھا تاکہ جوان ہوجائے تو اسکی فورسز اسے گولی مار دیں،چند ہی ماہ ہوئے تھے اسے گئے ہوئے ،کونسی قیامت ڈھائی تھی اس نے، اسے بچایا بھی تو جا سکتا تھا“۔ا
یہ جھڑپ سنیچر کی صبح سویرے ہوئی اور اس میں تین مقامی جنگجو مارے گئے جن کی شناخت عابد حمید میر ولد ڈاکٹر عبدالحمید میر ساکنہ حاجن سوناواری،جاوید احمد ڈار خان پورہ بارہمولہ اور دانش احمد ڈار بٹہ پورہ سوپور کے بطور ہوئی ہے۔ان تینوں میں ایک میر محلہ حاجن کے ایک خوبرو جوان عابد حمید ہیں جو چند ہی ماہ قبل جنگجووں کی صف میں شامل ہوگئے تھے۔وہ ”ظلم کا خاتمہ“کرنے نکلے تھے لیکن بہت زیادہ نہ جی سکے یہاں تک کہ اُنکے والد کو اُنکے جنازے کو کاندھا دینے کا ظلم سہنا پڑا۔
حاجن میں عابد کو جاننے والوں کا کہنا تھا کہ22سالہ عابدحمید میر ولد عبدالحمید اگرچہ گھر سے دور اوڑی میں مرکزی سرکار کے ایک بورڈنگ اسکول میں زیرِ تعلیم رہے ہیں تاہم ریاست کے حالات کا اُن پر بڑا اثر تھا اور وہ اکثر اس سلسلے میں گفتگو کرتے رہتے تھے۔لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ جنگجووں کے تئیں زبردست میلان تو رکھتے ہی تھے لیکن نئی دلی کی ٹیلی ویژن چینلوں کے ”پروپیگنڈہ“نے اُنہیں با الآخر بندوق اُٹھانے کیلئے گو یا”مجبور“کردیا۔اُنکے جاننے والوں کا کہنا ہے”وہ اکثر بھارتی ٹیلی ویژن چینلوں پر کشمیر سے متعلق ہونے والے جانبدار اور جھوٹے پروپیگنڈہ پر مبنی بحث و مباحثوں کے بارے میں بات کرتا تھا اور اسے ایک متعصب میڈیا بتاتے ہوئے اسکے جھوٹ پر کان نی دھرنے اور بھروسہ نہ کرنے کیلئے کہتا تھا“۔لوگوں کا مزید کہنا ہے کہ عابد جنوبی کشمیر میں اُبھرنے والی جنگجوئیت سے بڑے متاثر تھے اور با الخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں کی بندوق اُٹھانے پر آمادگی نے اُنہیں بھی اس خطرناک راستے پر جانے کیلئے آمادہ کردیا۔
جنگجو بننے سے قبل عابد کے ساتھ رہتے آئے جتنے بھی لوگوں کے ساتھ بات ہوئی اُس سے ایک بات یہ آسانی سمجھی جاسکی کہ عابد عمر میں چھوٹے تو تھے لیکن اُنکا جنگجو بن جانا کوئی حادثہ تھا اور نہ ہی اُنہوں نے ایسا جذبات میں آکر کیا تھا۔عابد جانتے تھے کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں اور اسکا انجام کیا ہے۔جیسا کہ اُنکے ایک دوست نے،جو اُنکا نام بتانے پر تاہم آمادہ نہیں تھے، بتایا”وہ ایک عام لڑکا نہیں تھا،وہ نصاب کی کتابوں سے باہر بھی بہت کچھ پڑھتا تھا اور یوں بات کرتا تھا کہ کوئی فلسفی ہو“۔وہ کہتے ہیں”آزادی اُسکا خواب تھااور وہ اسکے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا،اُس نے کبھی یہ تو نہیں بتایا کہ وہ بندوق اُٹھانا چاہتا تھا لیکن مسئلہ کشمیر،پاکستان،امریکہ ،مسلمانوں کے حالات اور یہ سب اُسکے دماغ پر حاوی ہوچکے تھے اور اُسکی باتوں سے اندازہ لگانا مشکل نہ رہا تھا کہ وہ ہماری طرح موبائل فون پر گیم کھیلنے یا اپن چیزوں کیلئے نہیں ہے کہ جو ہماری عمر کے اکثر لڑکوں کا مشغلہ ہوتی ہیں“۔
عابد کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے گھرانے سے توتھے ہی ساتھ ہی اُنکا گھرانہ مذہب دار بھی ہے۔انتہائی مغموم حالت میں ایک پڑوسی نے کہا”خود حمید صاحب(عابد کے والد)سینک اسکول میں پڑھے ہیں اور وہ فارمیسی گریجویٹ ہیں،بہت ہی نیک اور شریف النفس،بلکہ یہ پورا گھر ہی بڑا معتبر اور معزز ہے“۔اُنہوں نے مزیدکہا کہ وہ عابد کو ایک اچھے اور شریف بچے کے بطور جانتے ہیںجسے کبھی کوئی بُرا کام کرتے نہیں پایا گیا۔اُنہوں نے کہا”وہ تو برسوں گھر سے باہر رہا،وہ اوڑی کے ایک بڑے اسکول میں درج تھالیکن بہت تیز بھی تھا اور پیارا بھی“۔اُنکی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایک اور شخص نے کہا”نمازوں کا تو پابند تھا وہ بچپن سے ،بڑا نیک بچہ تھا “۔اادھیڑ عمر کے ان صاحب نے ایک دلچسپ بات کہی”مرکزی سرکار نے شائد اسی لئے اُسے پڑھایا تھا تاکہ جوان ہوجائے تو اسکی فورسز اسے گولی مار دیں،چند ہی ماہ ہوئے تھے اسے گئے ہوئے ،کونسی قیامت ڈھائی تھی اس نے، اسے بچایا بھی تو جا سکتا تھا“۔ا
اُنہوں نے مزید کہا”یہ بچے ایک سوال لیکر نکلتے ہیں جسکا جواب گولی نہیں ہونی چاہیئے،روز ہی ہمیں اُن بچوں کے جنازے اُٹھانا پڑتے ہیں کہ جنہیں ہمارے تابوتوں کا کہار ہونا چاہیئے تھا۔بھارت جو اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے ہمارے بیٹوں کے مارے جانے پر جشن کیسے منا سکتا ہے،یہ اسکی جیت کیسے ہوسکتی ہے،اسے ہمارے بچوں کی تشنگی کو سیاسی اور مہذب انداز میں دیکھ لینا چاہیئے اور دُنیا کو بھی دیکھ لینا چاہیئے کہ کشمیر میں بوڑھے والدین کی لاٹھیاں کیسے بے دردی سے توڑی جارہی ہیں“۔
یہ منظر دیدنی تھا،کہیں آہ و زاری تھی تو کہیں لاش پر گلباری ہورہی تھی،کئی بچیاں بین کر رہی تھیں تو کئی خواتین کشمیر میں شادی بیاہ کے مواقع پر روایتی انداز میں گایا جانے والا ”ونوُن“گاتے ہوئے ”مہراز“(دولہے)کو وداع کر رہی تھیں۔
عابد شاہکوٹ اوڑی کے جواہر نوادیاودالیہ کے اقامتی اسکول کے پڑھے تھے۔مرکزی سرکار کی جانب سے وادی میں اس طرح کے قریب پانچ اسکول چلائے جارہے ہیں جہاں کا داخلہ آسان نہیں ہے۔بارہویں کا امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کرکے عابد نودیہ ودالیہ سے فارغ ہوئے اور پھر اُنہوں نے سرینگر میں اسلامیہ کالج آف کامرس میں داخلہ لیا جہاں وہ گریجویشن کے دوسرے سال میں تھے جب اُنہوں نے قلم کی جگہ بندوق تھامی،تاہم وہ اس نئے اوتار میں چند ہی ماہ جی سکے۔
عابد کے پڑوسی نے اُن اور اُنکے گھرانے کی جو تعریفیں کی تھی اُنکی لوگوں کے ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے تب تصدیق کردی کہ جب وہ روتے بلکتے عابد کے جلوسِ جنازہ میں شریک ہوئے۔حالانکہ وادی میں یہ معمول ہے کہ سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جارہے جوانوں کے جلوسِ جنازہ میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں تاہم عابد کے یہاں لوگ زیادہ بھی تھے اور اُنکے چہروں پر چھایا غم بھی نمایاں تھا۔ایک نوجوان لڑکے کا رو روکے بُرا حال تھا اور وہ کہہ رہے تھے”لوگیا میون زُو،ہیا عابد بھایا،ژءکوت ژولکھ،ہیا میانیہ مجاہدا،یہ کیا گو،ہیا مخبرو پیو وا تاون“(میں تجھ پہ واری جاوں،ہے عابد بھائی،تم کہاں چلے گئے،ہے میرے مجاہد،یہ سب کیا ہوا،ہے مخبرو (یعنی جنہوں نے عابد کے بارے میں فوج کو پتہ دیکر اُنہیں مروایا ہے)تم برباد ہوجاو)۔وہ شائد عابد کے دوست یا رشتہ دار تھے لیکن اُنکا حال اس قدر بے حال ہوچکا تھا کہ اُنسے استفسار کی ہمت نہ بندھی۔البتہ وہ اکیلے سوگوار نہیں تھے،ہزاروں لوگ یوں بے حال لگ رہے تھے کہ جیسے عابد اُن میں سے ہر ایک کا اپنا بچہ ہو۔
کسی زمانے میں اخوانیوں(جنگجو مخالف سرکار نواز بندوق برداروں) کا ہیڈکوارٹر رہے حاجن کی گلیوں نے شائد اس سے پہلے اتنا بڑا جلوسِ جنازہ کبھی نہیں دیکھا ہوگا….یہ منظر دیدنی تھا،کہیں آہ و زاری تھی تو کہیں لاش پر گلباری ہورہی تھی،کئی بچیاں بین کر رہی تھیں تو کئی خواتین کشمیر میں شادی بیاہ کے مواقع پر روایتی انداز میں گایا جانے والا ”ونوُن“گاتے ہوئے ”مہراز“(دولہے)کو وداع کر رہی تھیں۔