راجوری// راجوری میں اپنی نوعیت کے سنسنی خیز معاملے میں ایک نوجوان نے اُن پر زنا کا الزام لگا کر اُنہیں پیشاب پینے کی سزا دئے جانے سے دلبرداشتہ ہوکر خود کُشی کرلی ہے۔ایک جھیل میں کود کر جان دینے سے قبل مذکورہ لڑکے نے ایک موبائل فون پر ایک صوتی پیغام ریکارڈ کرکے چھوڑا ہے جس میں اُنہوں نے مقامی پنچایت پر جھوٹا الزام لگانے اور پیشاب پینے کے جیسی ہتک آمیز سزا دینے کا الزام لگایا ہے۔اُنہوں نے کہا ہے کہ زنا اور پھر پیشاب پینے کے جیسی سزا ،دونوں،اُنکے لئے نا قابلِ برداشت تھیں لہٰذا اُنہوں نے خود کُشی کرنے کا فیصلہ لیا۔ پولس نے اس حوالے سے معاملہ درج کرکے تحقیقات شروع کی ہے اور مقامی پنچایت کے ممبران کی گرفتاریاں کسی بھی وقت متوقع بتائی جا رہی ہیں۔
”میں ایک سچا مسلمان ہوں، میں نہ خود پر عصمت ریزی کا الزام برداشت کرسکتا ہوں اور نہ ہی پیشاب پی سکتا ہوں کیونکہ یہ اللہ کے قانون کے خلاف ہے “۔
بدھل راجوری کے دور دراز ترگین گاوں کے فضل حسین پوسٹ گریجویٹ ہونے کی وجہ سے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کے بطور اپنے آس پروس میں بڑے مشہور رہے ہیں ۔29جولائی کو 25سالہ فضل گھر سے کہیں کیلئے نکلے اور غائب ہوگئے اور پھر اگلے ہی روز سمرسر جھیل میں اُنکی لاش ملی تھی اور اس کے ساتھ ہی سارے علاقے میں سنسنی پھیل گئی۔پولس کا کہنا ہے کہ یہ خود کُشی کا عام معاملہ معلوم ہوارہا تھا تاہم تحقیقات کے دوران خود فضل کے موبائل فون سے اس خود کُشی کا راز معلوم ہوا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر وائرل ہوچکے ایک صوتی پیغام میں فضل حسین نے سنسںی خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی پنچایت نے اُن پر ایک لڑکی کے ساتھ زنا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بعدازاں اُنہیں اسی لڑکی کا پیشاب پینے کی سزا سُنائی تھی جسے برداشت نہ کرتے ہوئے اُنہوں نے خود کُشی کر لی ہے۔مرنے سے قبل چھوڑے ہوئے اس پیغام میں مذکورہ نے وجاحت کے ساتھ کہا ہے کہ وہ پنچایت کے ہاتھوں انتہائی حد کی تذلیل کی وجہ سے خود کُشی کرنے پر مجبور ہوئے ہےں۔اُنہیں کہتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے”میں ایک سچا مسلمان ہوں، میں نہ خود پر عصمت ریزی کا الزام برداشت کرسکتا ہوں اور نہ ہی پیشاب پی سکتا ہوں کیونکہ یہ اللہ کے قانون کے خلاف ہے “۔
مذکورہ لڑکے یا لڑکی نے اس حوالے سے پولس کے پاس شکایت درج کرانے کی بجائے مقامی پنچایت میں معاملہ رکھا تھا جہاں ایسا فیصلہ سامنے آیا ہے کہ جو جان سے گئے نوجوان کو برداشت نہ ہوا۔ (ایس ایس پی راجوری)
پولس کا کہنا ہے کہ ابتدائی چھان بین کے دوران معلوم ہوا ہے کہ ایک مقامی لڑکی کے والد نے پنچایت میں یہ شکایت درج کی تھی کہ فضل حسین نے اُن کی بیٹی کی عصمت ریزی کی ہے۔حالانکہ فضل حسین نے پنچایت کے سامنے اس الزام کو رد کردیا تاہم پنچایت ممبران نے لڑکی کے والد کی حمایت کرتے ہوئے پہلے مذکورہ نوجوان کو لڑکی کے حق میں کچھ رقم ادا کرنے کےلئے کہا اور جب فضل نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو اُنکے خلاف ایک انتہائی ہتک آمیز فیصلہ سُناتے ہوئے اُنہیں مذکورہ لڑکی کا پیشاب پینے کی ہدایت دی گئی۔پولس کے مطابق فضل حسین نے اپنے آپ کو اس سزا کیلئے دماغی طور تیار کرنے کی خاطر دو دن کی مہلت مانگی اور اسی دوران اُنہوں نے جھیل میں کود کر جان دیدی۔
ایس ایس پی راجوری یوگل منہاس نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے اسکے زیرِ تفتیش ہونے کی بات بتائی۔ اُنہوں نے کہا کہ مذکورہ لڑکے یا لڑکی نے اس حوالے سے پولس کے پاس شکایت درج کرانے کی بجائے مقامی پنچایت میں معاملہ رکھا تھا جہاں ایسا فیصلہ سامنے آیا ہے کہ جو جان سے گئے نوجوان کو برداشت نہ ہوا۔ اُنہوں نے معاملے کی تحقیقات کے صحیح سمت میں جاری بتاتے ہوئے کہا کہ درجن بھر افراد سے پوچھ گچھ ہوئی ہے اور گرفتاریوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔