سرینگر// جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ہکڈی پورہ گاوں میں فوج اور جنگجووں کے بیچ جھڑپ شرو ہوگئی ہے اور یہاں لشکرِ طیبہ کے معروف اور سرکاری فورسز کو سب سے زیادہ مطلوب کمانڈر ابو دوجانہ اپنے دو ساتھیوں سمیت پھنسے ہوئے ہیں۔
ذرائ کا کہنا ہے کہ گاوں میں جنگجووں کی موجودگی سے متعلق اطلاع ملنے پر جونہی فوج اور دیگر سرکاری فورسز نے یہاں کا محاصرہ کر لیا تو ایک گھر میں موجود جنگجووں نے گولیاں چلاتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم پورے گاوں کی گھیرا بندی ہوچکی تھی اور وہ فرار ہونے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ان ذرائع کے مطابق جنگجووں نے واپس اُسی مکان میں پناہ لی ہے اور ابھی یہاں شدید جھڑپ جاری ہے۔ ان ذرائع کے مطابق یہاں کم از کم تین جنگجو موجود ہیں جن میں لشکر کے وادی میں چیف ابو دوجانہ بھی شامل ہیں۔
فورسز نے یہاں کا محاصرہ کر لیا تو ایک گھر میں موجود جنگجووں نے گولیاں چلاتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم پورے گاوں کی گھیرا بندی ہوچکی تھی اور وہ فرار ہونے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ان ذرائع کے مطابق جنگجووں نے واپس اُسی مکان میں پناہ لی ہے اور ابھی یہاں شدید جھڑپ جاری ہے۔
لشکرِ طیبہ کے معروف کمانڈر ابو قاسم کے جانشین ابو دوجانہ گزشتہ پانچ سال سے وادی میں سرگرم بتائے جاتے ہیں اور وہ سرکار کو مطلوب ترین جنگجو کمانڈروں میں سرِ فہرست ہیں۔ابو قاسم نے پولس کے اہم ترین افسر الطاف عرف لیپ ٹاپ کو شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ میں تب ہلاک کردیا تھا کہ جب الطاف قاسم کے تعاقب میں تھے مگر خود اُنکے جال میں پھنس گئے اور ہلاک کردئے گئے۔
یہ بھی پڑھیئے لشکر کمانڈر ابو دوجانہ ایک بار پھر فورسز کو چکمہ دے گئے
اس واقعہ کے چند ہی دن بعد ابو قاسم کو جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں ایک ڈرامائی کارروائی میں مارا گیا تھا جہاں بعدازاں اُنکے جلوسِ جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی تھی۔کسی غیر ملکی جنگجو کے اس قدر بڑے جلوسِ جنازہ کے بعد سرکار نے غیر ملکی جنگجووں کی لاشیں مقامی لوگوں کو سونپنا بند کرکے اُنہیں شمالی کشمیر میں کسی نامعلوم جگہ پر دفنانا شروع کیا تھا۔
ابو دوجانہ پر کئی بڑے حملوں،جن میں ادھمپور اور سرینگر کے مضافات میں ہونے والے حملے بھی شامل ہیں کہ جن میں سی آر پی ایف کے زائد از نصف درجن اہلکار ہلاک ہو گئے تھے،کا الزام ہے اور وہ خود ابھی تک کم از کم تین فورسز کے محاصرے میں آنے کے باوجود فرار ہوکر بچ نکلنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ابو دوجانہ پر کئی بڑے حملوں،جن میں ادھمپور اور سرینگر کے مضافات میں ہونے والے حملے بھی شامل ہیں کہ جن میں سی آر پی ایف کے زائد از نصف درجن اہلکار ہلاک ہو گئے تھے،کا الزام ہے اور وہ خود ابھی تک کم از کم تین فورسز کے محاصرے میں آنے کے باوجود فرار ہوکر بچ نکلنے میں کامیاب رہے ہیں۔پلوامہ میں ایک کار میں سفر کے دوران وہ مشکل سے فرار ہو پائے تھے تاہم اپنا موبائل فون کار میں ہی بھول آئے تھے جسے بعدازاں سرکاری فورسز نے ضبط کردیا تھا۔ذرائع کے مطابق سکیورٹی ایجنسیاں ابھی تک اس فون کو کھول نہیں پائی ہیں۔ایک پولس افسر کے مطابق لشکر کمانڈر سرکاری فورسز کے راڈار پر ہیں اور اُنکی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا رہی ہے۔