سرینگر// سرینگر کی مرکزی جامع مسجد آج لگاتار چھٹے جمعہ کو بھی سنسان پڑی رہی کہ انتظامیہ نے مسجد کو مقفل کرکے یہاں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ ذرائع کے مطابق سرکاری انتظامیہ نے مسجد کے مرکزی پھاٹک اور باقی سارے دروازوں پر قفل چڑھارکھے تھے اور پوری وادی کی مساجد میں مرکزی حیثیت رکھنے والی اس مسجد کی جانب کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
مشترکہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے مژھل کی فرضی جھڑپ کے مجرم فوجیوں کی سزا معطل کرکے اُنہیں ضمانت پر چھوڑ دینے کے ایک فوجی عدالت کے فیصلے اور تفتیشی ایجنسی این آئی اے کی جانب سے حُریت کے کئی کارکنوں کو گرفتار کر لینےکے خلاف آج کیلئے پُرامن احتجاج کی کال دی ہوئی تھی۔ سرکاری انتظامیہ نے تاہم سید علی شاہ گیلانی ،مولوی عمر فاروق،جو جامع مسجد کے مہتمم بھی ہیں،اور یٰسین ملک کی مشترکہ قیادت کی احتجاجی کال کو ناکام بنانے کیلئے شہر کے پائین علاقے میں آج کرفیو کر دیا تھا۔
بُرہان وانی کے مارے جانے پر گذشتہ سال اس مسجد کو قریب چار ماہ تک بند کردیا گیا اور یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی تاہم گذشتہ سات سال میں یہ پہلی بار ہے کہ جب جامع کو رمضان کے متبرک مہینے میں پہلے بھی جمعہ کے موقعہ پر،پھر جمعتہ الوداع کے خصوصی موقعہ پر اور پھر تب سے لگاتار بند کرکے یہاں نماز کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
پائین سرینگر کے پانچ پولس تھا نوں کے تحت آنے والے علاقوں میں اضافی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے اور جگہ جگی رُکاوٹیں ڈالی گئی ہیں۔ یہاں کے کئی لوگوں نے بتایا کہ اُنہیں آزادانہ نقل و حمل کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور نہ ہی کسی کو نمازِ جمعہ کی ادائیگی کیلئے جامع جانے دیا گیا ہے۔ یہ لگاتار چھٹی بار ہے کہ جب انتظامیہ نے مسجد کا محاصرہ کرکے یہاں نمازِ جمعہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ سید علی گیلانی اب لگاتار سات سال سے حیدرپورہ میں اپنی رہائش گاہ کے اندر نظربند ہیں جبکہ مولوی عمر فاروق، جو جامع میں وعظ خوانی بھی کرتے ہیں، کو بھی اُنکے نگین والے بنگلے میں بند کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ماہ ِرمضان کے آخری جمعہ سے سخت پابندیوں کے باعث جامع مسجد میں اب تک نماز جمعہ ادا کرنے کی کبھی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ یہ لگاتار پانچواں جمعہ گذرا کہ جب لوگوں کو جامع میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ جامع مسجد میں ڈوگرہ دور کے زوال کے بعد پہلی مرتبہ رمضان کے آخری جمعہ ،جسے جمعتہ الوداع کہا جاتا ہے،کو بھی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔
سلطان زین العابدین عرف بڈشاہ کے والد سلطان سکندر کے ذرئعہ پندرہویں صدی میں بنوائی جا چکی،شہر کے نوہٹہ علاقہ میں واقع، جامع مسجد کا کشمیر کی تحریک کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور جب جب یہاں بغاوت ہوئی ہے جامع مسجد کسی نہ کسی شکل میں اسکا حصہ مانی جاتی رہی ہے اور پھر اسے بھی عتاب کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔چناچہ سکھوں اور ڈوگرہ شاہی کے دور میں یہ مسجد لگاتار برسوں بند رہتی آئی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ1842میں سکھ دورکے آخری گورنر شیخ انعام الدین کے دورمیں اس تاریخی مسجد کو کھولا گیا تاہم اس دوران مسلسل11برسوں تک مسجد میں صرف نماز جمعہ ہی ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس دوران جمعہ کو کچھ گھنٹوں کیلئے ہی مسجد کو کھولا جاتا تھا اور بعد میں بند کیا جاتا تھا تاہم1898کے بعد ہی مسجد کو کھولا گیا۔
موجودہ تحریک کے دوران بھی اسے آئے دنوں نمازیوں کے لئے بند کردیا جانا ایک معمول سا بن گیا ہے۔ قریب تیس سال پہلے جموں کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہونے کے بعد سے یہ مسجد بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں کا مرکز بن کے اُبھری ہے اور ہر جمعہ کو نماز کے بعد ہزاروں لوگ جلوس نکالنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں جنہیں روکے جانے کے بعد نوجوانوں اور سرکاری فورسز کے مابین جھڑپیں یہاں ہر جمعہ کا معمول ہو گئی ہیں۔
حزب کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے پر گذشتہ سال اس مسجد کو قریب چار ماہ تک بند کردیا گیا اور یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی تاہم گذشتہ سات سال میں یہ پہلی بار ہے کہ جب جامع کو رمضان کے متبرک مہینے میں پہلے بھی جمعہ کے موقعہ پر،پھر جمعتہ الوداع کے خصوصی موقعہ پر اور پھر تب سے لگاتار بند کرکے یہاں نماز کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔