سانحہ بیرو..تنویر کے قتل کی تین مختلف کہانیاں!

سرینگر// وسطی ضلع بڈگام کے بیروہ قصبہ میں فوج کے ہاتھوں ہوئے قتل کی تین تین کہانیاں ہیں جو ایک دوسرے سے نہیں ملتی ہیں۔ جائے واردات پر موجود رہے لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ فوج نے پہلے چھاپڑی فروشوں اور راہگیروں کی مارپیٹ کی اور پھر اسکے خلاف احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسائیں۔تاہم پولس نے فوجی کارروائی کو ”جواز“بخشتے ہوئے کہا ہے کہ فوج نے”شرپسندوں“کی طرفسے سر کئے گئے ایک پٹاخے کی آواز کو اپنے اوپر گرنیڈ حملہ ہونے کے شک میں گولی چلائی ۔خود فوج نے ایک الگ کہانی بیان کی ہے جو نہ فوجی قہر کا شکار ہونے والوں کے بیان سے ملتی ہے اور نہ ہی فوج کے دفاع میں سامنے آئی پولس کی ”جوازیت“سے ہی میل کھاتی ہے۔

خود فوج نے ایک الگ کہانی بیان کی ہے جو نہ فوجی قہر کا شکار ہونے والوں کے بیان سے ملتی ہے اور نہ ہی فوج کے دفاع میں سامنے آئی پولس کی ”جوازیت“سے ہی میل کھاتی ہے۔

بیروہ قصبہ میں آج دوپہر کے قریب فوج کی 53 آر آر نے نے گولی چلاکر دو نوجوانوں کو زخمی کردیا تھا جن میں سے بعدازاں تنویر احمد نامی ایک زخمی کی موت واقعہ ہوگئی۔ پیشے سے درزی تنویر کے سر میں گولی لگی تھی اور وہ زخمی ہوجانے کے فوری بعد اسپتال پہنچائے جانے پر ٹھنڈے پڑ گئے جبکہ دوسرے زخمی کا علاج جاری بتایا جا رہا ہے۔اس واقعہ کو لیکر یہاں کہرام مچ گیا اور پھر انتہائی جذباتہ ماحول میں ہزاروں لوگوں نے تنویر کے جنازہ میں شرکت کی اور اُنہیں نمناک ماحول میں سپردِ خاک کیا گیا۔

دلچسپ ہے کہ یہ افسوسناک واقعہ ان حالات میں پیش آیا ہے کہ جب وادی میں آئے دنوں عام لوگوں کے سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کے خلاف مشترکہ مزاحمتی قیادت کی کال پر ہڑتال کی جارہی ہے۔قیادت نے سونہ وار میں اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصر کے دفتر کے سامنے دھرنا پر بیٹھنے کا پروگرام بنایا تھا جسے انتظامیہ نے کرفیو لگاکر ناکام بنادیا۔

تصویر فیس بُک سے لی گئی ہے

بیروہ میں لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج کی ایک پیٹرولنگ پارٹی نے بلا کسی اشتعال کے کئی چھاپڑی فروشوں اور راہگیروں کو پکڑ کر اُنکے ساتھ مار پیٹ کی اور اُنہیں ذلیل کیاجسکے خلاف یہاں موجود دیگر لوگوں نے احتجاج کیا۔تنویر کو اسپتال لیکر آئے کئی نوجوانوں نے بھی یہی بیان دیا اور کہا کہ فوج کی زیادتیوں کے خلاف لوگوں نے شور اُٹھایا اور معمولی پتھراو ہوا تو فوج نے بندوقوں کے دہانے کھول کر راست فائرنگ کی اور دو لوگوں کو زخمی کردیا جن میں سے بعدازاں تنویر جاں بحق ہوگئے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دو ایک روز قبل جنوبی کشمیر میں وزیرِ اعلیٰ کے آبائی قصبہ بجبہاڑہ میں بھی ایک فوجی گاڑی نے ایک موٹر سائیکل سوار کو ٹکر مار دی جسکے خلاف شور اُٹھانے کی جُرات کرنے والی بھیڑ پر فائرنگ کرکے فوج نے ایک سٹھ سالہ شہری کو زخمی کردیا جنہوں نے رات بھر سرینگر کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد دم توڑ دیا ۔

پولس نے دعویٰ کیا ہے کہ فوج پر سنگبازی ہوئی اور اس دوران ”شرپسندوں“نے ایک پٹاخہ پھوڑا جسے گرنیڈ سمجھ کر فوجی اہلکاروں نے گولی چلائی۔

پولس نے بیروہ واقعہ کے فوری بعد ایک بیان جاری کرکے گویا فوجی کارروائی کو ”جواز“بخشنے کی کوشش کی۔ پولس نے دعویٰ کیا ہے کہ فوج پر سنگبازی ہوئی اور اس دوران ”شرپسندوں“نے ایک پٹاخہ پھوڑا جسے گرنیڈ سمجھ کر فوجی اہلکاروں نے گولی چلائی۔ ایک پولس ترجمان نے بتایاہے ”ابتدائی اطلاعات کے مطابق فوج کی ایک پٹرولنگ پارٹی پیدل اپنے کیمپ کو لوٹ رہی تھی کہ بیروہ قصبہ کے نزدیکی کچھ شرپسندوں نے اس پر پتھر پھینکے اور کچھ شرپسندوں نے فوج کی طرف پھینک کر ایک پٹاخہ پھوڑ دیا جسکے دھماکے کو فوج نے گرنیڈ حملہ سمجھ لیااور جواب میں فائرنگ کی۔فائرنگ سے تنویر احمد پالا اور محمد ابراہیم وانی نامی دو نوجوان زخمی ہوگئے جن میں سے تنویر نے بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیا“۔

کچھ سنگبازوں نے گشتی پارٹی کے قریب آکر جوانوں سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی۔

فوج نے تاہم ایک الگ ہی کہانی بیان کی ہے۔سرینگر میں مقیم ایک دفاعی ترجمان کرنل راجیش کالیانے جو بیان جاری کیا ہے اُس میں یوں لکھا ہے”بیروہ قصبہ کے قریبی کوندر گاوں میں فوج کی ایک گشتی پارٹی پر سوا ایک بجے شدید سنگباری کی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے سنگبازوں کی تعداد بڑھ گئی اور سنگبازی میں بھی شدت آگئی۔کچھ سنگبازوں نے گشتی پارٹی کے قریب آکر جوانوں سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی۔فوج نے جب گولی چلائی تو دو لوگ زخمی ہوگئے جن میں سے تاہم بعدازاں ایک نے زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیا“۔

یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ یہ وہی فوجی یونٹ ہے کہ جس نے9اپریل کو پارلیمانی انتخاب کے دوران فاروق احمد ڈار نامی ایک نوجوان کو ایک جیپ کو بونٹ کے اوپر باندھ کر انسانی ڈھال کے بطور استعمال کیا تھا۔ اس واقعہ کی ویڈیو نے وائرل ہوکر فوج کو بدنام کردیا تھا تاہم فوجی چیف جنرل بپن راوت نے اس واقعہ کے ذمہ دار میجر لیتُل گگوئی کو اعزاز سے نواز کر ایک بڑے تنازعے کو جنم دیا تھا اور سب کو حیران کر دیا تھا۔

Exit mobile version