پاکستانی جنگجو بتاکر مارا گیا شخص پولس والے کا کریانہ فروش بیٹا نکلا

اسلام آباد// بُلبُل نوگام میں پاکستانی جنگجوبتاکر مارے جاچکے ایک شخص نہ صرف یہ کہ ایک سابق پولس اہلکار کے مقامی کریانہ فروش ثابت ہوئے ہیں بلکہ اُنکے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ جنگجو تھے ہی نہیں۔رئیس احمدپیر کی رات کو اسلام آباد قصبہ سے سات کلومیٹر دور بُلبُل نوگام کے شیخ محلہ کے قریب لشکرِ طیبہ کے دو جنگجووں کے سمیت فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
پولس کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک ”چانس اینکاونٹر“تھاکہ جونہی ایک گاڑی میں سوار تین جنگجو فوج اور پولس کی ناکہ پارٹی کے قریب پہنچے اُنہیں رُکنے کا اشارہ کیا گیا تاہم اُنہوں نے گولی چلا کر جھڑپ چھیڑی جو محض پانچ منٹ میں تینوں کے مارے جانے پر ختم ہوگئی۔مارے گئے جنگجووں کی شناخت شوکت احمد لوہاراورمدثر احمد حجام کے بطور کی گئی اور تیسرے کو غیر شناخت شدہ پاکستانی شہری قرار دیا گیا۔تاہم مذکورہ کی بعدازاں رئیس احمد بٹ ساکنہ ہاکورہ بدسگام حال پہرو سرنل اسلام آباد کے بطور شناخت ہوئی ۔بٹ خاندان کے لئےرئیس کا یوں مارا جانا ہی نہیں بلکہ یہ بات بھی سکتے میںڈالنے والی ہے کہ اُنہیں جنگجو بتایا جارہا ہے۔رئیس کے وکیل بھائی عارف کا کہنا ہے کہ نصیر اتوار کی شام کو اپنے موجودہ گھر واقع پہرو سے والدین کو لیکر آبائی گھر ہاکورہ روانہ ہوگئے تھے کہ جہاں اُنکے ایک رشتہ دار کا انتقال ہوا تھا۔

”میں نے پونے نو بجے رات کے قریب رئیس کو جلد گھر بلایا کیونکہ مجھے کہیں جانا تھا۔میں نے اُسے دو بار فون کیا اور بات کرنے کے دوران اُس نے مجھے یہ بھی کہا کہ اُس نے کہیں گولیاں چلنے کی آواز سُنی ہے،وہ تب گاڑی چلا رہا تھا۔میں نے اُسے کہا کہ یہ نزدیکی فوجی کیمپ میں فوجیوں کی ڈرل ہورہی ہوگی۔اسکے بعد میں نے اُسے فون کرنا چاہا لیکن فون بند ہوچکا تھا“۔

ایڈوکیٹ عارف کہتے ہیں”میں نے پونے نو بجے رات کے قریب رئیس کو جلد گھر بلایا کیونکہ مجھے کہیں جانا تھا۔میں نے اُسے دو بار فون کیا اور بات کرنے کے دوران اُس نے مجھے یہ بھی کہا کہ اُس نے کہیں گولیاں چلنے کی آواز سُنی ہے،وہ تب گاڑی چلا رہا تھا۔میں نے اُسے کہا کہ یہ نزدیکی فوجی کیمپ میں فوجیوں کی ڈرل ہورہی ہوگی۔اسکے بعد میں نے اُسے فون کرنا چاہا لیکن فون بند ہوچکا تھا“۔بٹ خاندان کا کہنا ہے کہ نصیر کبھی بھی کسی جنگجوئیانہ کارروائی میں ملوث نہیں رہے ہیں اور نہ ہی وہ کبھی سرکاری ایجنسیوں کو مطلوب رہے۔اُنکے رشتہ داروں کو تاہم شک ہے کہ رئیس سے شائد جنگجووں لفٹ مانگی ہو۔ اُنکے ایک رشتہ دار کا کہنا ہے”بس یہی ایک امکان ہوسکتا ہے کہ چونکہ وہ اکیلے گاڑی میں تھا،جنگجووں نے اُس سے لفٹ مانگی “۔ وہ ساتھ ہی کئی مثالیں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خود فوجی اہلکار بھی اکثر نجی گاڑیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو اپنے ساتھ لیجاتے رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں”گاڑی پر راست فائرنگ کرنے کی بجائے اُسے روکا جانا چاہیئے تھا اور یہ دیکھا جانا چاہیئے تھا کہ کہیں اس میں کوئی عام انسان بھی تو نہیں ہے“۔
خود پولس میں ملازم رہے رئیس کے والد نذیر احمد بٹ کہتے ہیںکہ اُنکے بیٹے کی پہرو میں گھر کے قریب ہی کریانے کی دکان تھی جہاں وہ اپنے بھائی اور خود اُن،نذیر احمد،کے ساتھ کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں”ہم پولس کا یہ دعویٰ نہیں مانتے کہ رئیس ملی ٹینٹ تھا“۔وہ کہتے ہیں کہ جب رئیس گھر نہیں پہنچے اور اُنکا فون بھی بند تھا تو وہ پریشان ہوئے ۔رئیس کے غم سے نڈھال بھائی کہتے ہیں”ہم اُسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے پہلے اسپتال پہنچے اور پھر صدر تھانے گئے جہاں سے ہمیں ایس او جی کیمپ جاکر دیکھنے کیلئے کہا گیا۔یہاں پر تین لاشیں رکھی گئی تھیں جن میں سے دو مقامی جنگجووں اور ایک پاکستانی جنگجو کی بتائی جارہی تھی،میں نے دیکھتے ہی اپنے بھائی کو پہچان لیا جسے وہ لوگ پاکستانی جنگجو بتا رہے تھے“۔
اس دوران جنوبی کشمیر کے ڈی آئی جی ایس پی پانی نے ایک خبررساں ادارے کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرینگے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ رئیس کے گھر والوں سے بھی پوچھ تاچھ کی جائے گی اور یہ پتہ کیا جائے گا کہ سچ کیا ہے حالانکہ ایک مقامی اخبار نے کسی نا معلوم پولس افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ رئیس قتل کے کسی معاملے میں دو سال جیل میں رہے ہیں اور اسی دوران اُنکا جنگجووں کے ساتھ رابطہ ہوا تھا جو اُنکے مارے جانے تک جاری رہا۔ مذکورہ نا معلوم پولس افسر نے رئیس کی تحویل سے ایک پستول کی برآمدگی کا بھی دعویٰ کیا ہے ۔

 

Exit mobile version