اسلام آباد// اسلام آباد قصبہ کے مضافاتی علاقہ بُلبل نوگام میں پیر کی رات کو چند منٹوں کی مختصر جھڑپ میں مارے گئے جنگجووں کی کل انتہائی جذباتی ماحول میں اپنے اپنے آبائی علاقوں میں تدفین ہوئی اور اس دوران ”اسلام و آزادی“کیلئے نعرہ بازی کرتے ہوئے ہزاروں لوگوں نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔
قصبہ کے بُلبُل نوگام میں پیر کی شب کو ایک ”اچانک جھڑپ“کے دوران لشکرِ طیبہ کے تین جنگجو،شوکت احمد لوہار،مدثر احمد حجام اور نصیر احمد بٹ، مارے گئے تھے حالانکہ ان میں سے ایک ،نصیر احمد،کے لواحقین نے پولس کی دعویداری کو رد کرتے ہوئے جوابِ دعویٰ میں اپنے بچے کے جنگجو ہونے کی تردید کی ہے۔پولس کا دعویٰ ہے کہ تینوں جنگجو ایک کار میں سوار ہوکر کہیں جارہے تھے کہ گھات میں بیٹھی فوج اور پولس اہلکاروں نے اُنہیں روکنے کی کوشش کی تاہم جواب میں ان جنگجووں نے گولی چلاکر جھڑپ چھیڑ دی جو پانچ منٹ میں تینوں کے مارے جانے پر ختم ہوگئی۔
ان تینوں نوجوانوں کے مارے جانے کی خبر پھیلتے ہوئے ہی اُنکے آبائی علاقوں میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی اور لوگوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کئے۔حالانکہ جھڑپ کے ساتھ ہی سرکاری فورسز نے متعلقہ علاقوں میں انٹرنیٹ کی سروسز بند کروادی تھیں تاہم اسکے باوجود بھی آرونی اور کوکرناگ میں ہزاروں لوگ جمع ہوگئے اور یہاں کی مساجد کے لاوڈ اسپیکروں پر”جہادی ترانے“چلانا شروع کئے گئے جو رات دیر گئے تک سُنے گئے۔ذرائع نے بتایا کہ چونکہ جھڑپ انتہائی مختصر تھی اور اسکے بارے میں لوگوں کو بروقت خبر نہیں ہوسکی لہٰذا جائے واردات پر جھڑپ کے جاری رہتے ہوئے کوئی احتجاج نہ ہوا اور نہ ہی لوگ ان جنگجووں کو بچانے کی کوششیں کرسکے جیسا کہ سال بھر سے اب وادی میں معمول بن گیاہے۔
وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کے آبائی قصبہ بجبہاڑہ کے بغل میں آرونی کے مقام پر شوکت لوہار کے گھر ہزاروں لوگ جمع تھے جبکہ یہاں کے ایک اسکول گراونڈ میں ایک عارضی اسٹیج بنایا گیا تھا کہ جس پر پاکستانی پرچم میں لپٹی ہوئی شوکت کی لاش کو لوگوں کے آخری دیدار کے لئے رکھا گیا تھا۔یہاں موجود لوگ جذباتی نعرہ بازی کے بیچ نم آنکھوں کے ساتھ لوہار کے آخری دیدار کرتے رہے اور پھر پہلے ساڑھے آٹھ بجے اور بعدازاں دوبارہ ساڑھے دس بجے اُنکی نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور اُنہیں سپردِ خاک کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تینوں نوجوانوں کے مارے جانے کی تصدیق ہونے پر اُنکے آبائی علاقوں میں ہزاروں لوگ میتوں کا انتظار کرتے ہوئے جاگتے رہے اور پھر رات دو بجے پولس نے اُنہیں لاشیں سونپ دیں تو یہاں کہرام مچ گیا۔وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کے آبائی قصبہ بجبہاڑہ کے بغل میں آرونی کے مقام پر شوکت لوہار کے گھر ہزاروں لوگ جمع تھے جبکہ یہاں کے ایک اسکول گراونڈ میں ایک عارضی اسٹیج بنایا گیا تھا کہ جس پر پاکستانی پرچم میں لپٹی ہوئی شوکت کی لاش کو لوگوں کے آخری دیدار کے لئے رکھا گیا تھا۔یہاں موجود لوگ جذباتی نعرہ بازی میں نم آنکھوں کے ساتھ لوہار کے آخری دیدار کرتے رہے اور پھر پہلے ساڑھے آٹھ بجے اور بعدازاں دوبارہ ساڑھے دس بجے اُنکی نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور اُنہیں سپردِ خاک کیا گیا۔معلوم ہوا ہے کہ شوکت کو ساڑھے آٹھ بجے دفن کرنے کا پروگرام رکھا گیا تھا تاہم لوگوں کے رش کو دیکھتے ہوئے اُنہیں روکا گیا اور پھر اُنہیں گیارہ بجے کے قریب لحد میں اُتارا گیا۔اس دوران یہاں کئی مقامی مزاحمت کاروں نے تقاریر کیں جبکہ بزرگ مزاحمتی راہنما سید علی شاہ گیلانی نے،جو اب سات سال سے سرینگر کے حیدرپورہ میں اپنی رہائش گاہ کے اندر نظربند ہیں،بھی ٹیلی فون پر سوگواروں سے خطاب کیا۔معلوم ہوا ہے کہ لوہار نے اُنکے مارے جانے پر سید گیلانی کی پیشوائی میں اُنکی نمازِ جنازہ پڑھائے جانے کی وصیت کر رکھی تھی تاہم بزرگ لیڈر نظربندی کی وجہ سے وہاں نہ پہنچ سکے تاہم اُنہوں نے سوگواروں سے خطاب کے دوران لوہار اور اُنکے ساتھیوںکو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔
پولس کی زباں میں لوہار ”اے کٹیگری“جنگجو تھے اور وہ قریب دو سال سے سرگرم تھے۔اُنکے جاننے والوں کے مطابق بندوق اُٹھانے سے قبل وہ مقامی درسگاہوں میں مدرس تھے اور اُنکا دیوبند جاکر اعلیٰ مذہبی تعلیم پڑھنے کا ارادہ تھا البتہ حزب کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے کے بعد وہ اپنا ارادہ بدل کر جنگجو بن گئے اور لشکرِ طیبہ کے ساتھ وابستہ ہوگئے یہاں تک کہ پیر کی شب کو اُنہیں ایک مختصر اینکاونٹر میں مار گرایا گیا۔
جنگجو بننے سے ایک دن پہلے مدثر نے مقامی بیت المال کو ایک ہزار روپے کا چندہ دیا تھا اور پھر دوسرے ہی دن وہ چلے گئے تھے۔
دنی وٹھ کوکرناگ میںمدثر احمد حجام کے یہاں بھی اسی طرح کی صورتحال رہی کہ یہاں بھی ہزاروں لوگوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ اُنکی نمازِ جنازہ پڑھی اور پاکستانی پرچم میں لپٹی اُنکی لاش کو نم آنکھوں کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔مدثررواں ماہ کی ابتداءمیں گھر سے غائب ہوکر جنگجو بن گئے تھے اور پولس نے اُنہیں ”بی کٹیگری“کے جنگجووں کے زُمرے میں رکھا ہوا تھا۔اُنکے یہاں لوگوں نے بتایا کہ وہ انتہائی دیندار نوجوان تھے اور جنگجو بننے سے قبل کسی بھی مزاحمتی پروگرام یابھارت مخالف احتجاجی مظاہرے میں پیش پیش ہوتے تھے۔اُنکے ایک پڑوسی نے بتایا کہ جنگجو بننے سے ایک دن پہلے مدثر نے مقامی بیت المال کو ایک ہزار روپے کا چندہ دیا تھا اور پھر دوسرے ہی دن وہ چلے گئے تھے۔پولس کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ لشکرِ طیبہ کے معروف کمانڈر بشیر لشکری عرف ابو عکاشہ کے علاقے کے تھے لہٰذا وہ لشکری کے بہت قریب رہے ہیں۔اچھہ بل پولس کے ایس ایچ او اور اُنکے چھ ساتھیوں کی ہلاکت میں لشکری کے ساتھ مدثر بھی شاملِ ملزمین بتائے جارہے تھے۔واضح رہے کہ بشیر لشکری کو رواں ماہ کی ابتداءمیں دیالگام کی ایک مضافاتی بستی میں ہوئی ایک طویل جھڑپ میں مار گرایا گیا تھا۔
دریں اثنا اسلام آباد کے بیشتر علاقوں میں کل کسی بضابطہ کال کے بغیر ہی ان جنگجووں کی تعزیت میں ہڑتال رہی اور ضلع بھر میں معمول کی سرگرمیاں متاثر رہیں۔انتظامیہ نے ”احتیاطاََ“ انٹرنیٹ سروس اور اسکولوں کو بند کر رکھا تھا جبکہ بانہال-بارہمولہ ریل سروس بھی بند رہی۔