سرینگر// وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ یہ بات اگرچہ ابھی پوری طرح واضح نہیں ہو پائی ہے کہ امرناتھ یاتریوں کی ایک گاڑی اتفاقاََ جنگجوئیانہ حملے کا شکار ہوئی تھی یا پھر اس گاڑی کو عمداََ نشانہ بنایا گیا تھا تاہم یہ حملہ بذاتِ خود سکیورٹی میں رہی خامیوں کا نتیجہ تھا۔اُنہوں نے کہا ہے کہ ماضی میں ہوئے واقعات کے برعکس اس حملے کی تحقیقات کو انجام تک پہنچایا جائے گا۔
”میرے لئے آپ کو وثوق سے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اصل میں کیا ہوا تھا اور اسکا الزام کس پر ڈالا جاسکتا ہے۔البتہ (سکیورٹی میں)خامیاں تھیں اور اسی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا“۔
ایک انگریزی اخبار کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران محبوبہ مفتی سے پوچھا گیا تھا کہ کھنہ بل کی فوجی چھاونی،ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کے دفاتر اور پولس کے ایس او جی کے ایک کیمپ کے بغل میں ایک انتہائی حساس مقام پر یہ حملہ کیسے ہوپایا ہے؟۔وزیرِ اعلیٰ نے جواب میں کسی چون و چرا کے بغیر سکیورٹی میں رہی خامیوں کا اعتراف کیا ہے۔اُنہوں نے تاہم کہا ہے کہ وہ ابھی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اُس دن اصل میں کیا اور کیسے ہوا تھا۔ اُنکے الفاظ میں”میرے لئے آپ کو وثوق سے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اصل میں کیا ہوا تھا اور اسکا الزام کس پر ڈالا جاسکتا ہے۔البتہ (سکیورٹی میں)خامیاں تھیں اور اسی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا“۔اُنہوں نے البتہ ساتھ ہی کہا ہے کہ کوئی بھی سکیورٹی ایسی نہیں ہوسکتی ہے کہ جسے توڑا نہ جاسکتا ہو۔واضح رہے کہ جنوبی کشمیر کے بٹنگو قصبہ میں گزشتہ ہفتے امرناتھ یاتریوں کی ایک گاڑی پُراسرار طور نا معلوم جنگجووں کے حملے کی زد میں آئی تھی اور اس میں موقعہ پر ہی سات اور بعدازاں کئی زخمیوں میں میں سے ایک یاتری کی موت واقع ہوگئی تھی۔
واقع سے متعلق تفصیل سے بات کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا ہے”یاتریوں کی گاڑیوں کے ساتھ سکیورٹی رہتی ہے لیکن یہ گاڑی باضابطہ کانوائے کا حصہ نہیں تھی البتہ اسکے ساتھ ہی ساتھ پولس کی ایک گاڑی جارہی تھی جو پہلے حملے کا نشانہ بنی۔میں ابھی تک اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتی ہوں کہ یاتری ہی اس حملے کا نشانہ تھے یا پھر وہ فورسز اور جنگجووں کے بیچ کراس فائرنگ میں آگئے“۔اُنہوں نے کہا ہے کہ وہ اس بات کا یقین دلاتی ہیں کہ ماضی کے واقعات کے برعکس اس واقعہ کے حوالے سے جاری تحقیقات کو انجام تک پہنچایا جائے گا۔