ترال// جنوبی کشمیر میں اپنی نوعیت کے پہلے واقعہ میں فوج اور دیگر سرکاری فورسز نے ایک قدرتی غار میں قائم جنگجووں کی پناہ گاہ کا پتہ لگاکر اس پر دھاوا بولدیا اور ایک پاکستانی سمیت تین جنگجووں کو مار گرایا۔یہ واقعہ ترال کی آری پل تحصیل کا ہے جہاں گزشتہ روز قریب بارہ گھنٹوں تک اپنی نوعیت کی شدید فائرنگ ہوتی رہی اور شام گئے فوج نے آپریشن کا ختم قرار دیا۔
جموں کشمیر پولس کے چیف ایس پی وید نے سنیچر کی شام کو بتایا کہ آپریشن میں تین جنگجووں کو مارگرایا گیا ہے جبکہ اُنکی کمین گاہ کے بطور استعمال ہوتے رہے غار میں سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ہے۔گوکہ پولس کو دیر گئے تک لاشوں کی شناخت کرنے میں دقعتیں آرہی تھیں تاہم بعدازاں معلوم ہوا کہ مختار احمد لون اور پرویز احمد باالترتیب امری آباد ترال اور پوہو پلوامہ کے رہائشی تھے جبکہ تیسرے جنگجو کا نام حسن بھائی تھا اور وہ پاکستانی تھے۔مختار کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ ماہ بھر قبل ہی جنگجو بن گئے تھے اور ان تینوں کا تعلق جیشِ محمد تنظیم سے تھا۔
غار میں موجود تیسرے جنگجو نے پورا دن اس طرح سرکاری فورسز کو اُلجھائے رکھا کہ آپریشن کے ختم ہوجانے تک یہ فورسز اس شک میں مبتلا رہیں کہ غار میں کئی جنگجو موجود ہیں اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کر رہے ہیں۔
چناچہ ترال قصبہ سے قریب بیس کلومیٹر دور جس جگہ پر یہ غار واقعہ ہے یہ ستورہ اور حاجن نامی دو گاوں کے درمیان ایک پہاڑی ہے جہاں لوگ اکثر تفریح کیلئے گھومنے جاتے ہیں۔ذرائع کے مطابق جمعہ کی شام سے ہی دونوں گاوں میں فوج اور جموں کشمیر پولس کی غیر معمولی سرگرمیاں دیکھی گئی تھیں جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ سرکاری اہلکاروں نے جنگجووں کا روپ بناکر لوگوں سے جائے پناہ بھی مانگی تھی تاہم ان لوگوں کی حرکات و سکنات کو مشکوک پاکر لوگوں نے اُنسے تعاون کرنے سے انکار کیا۔معلوم ہوا ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کو پہاڑ پر واقعہ غار میں جنگجووں کی موجودگی سے متعلق ثقہ اطلاع ملی ہوئی تھی جسکی بنیاد پر سنیچر کی صبح چھ بجے کے قریب یہاں کا محاصرہ کرکے غار کے اندر گرنیڈ پھینکے گئے۔بتایا جاتا ہے کہ غار اندر سے بہت لمبی اور گہری ہے اور پہلے گرنیڈ پھٹتے ہی دو جنگجو مارے گئے جنکی لاشیں پولس نے فوراََ ہی بر آمد کرکے غار کے باہر رکھی گئیں۔
”حالانکہ اب ہم فورسز اور مجاہدین کے بیچ جھڑپیں ہوتے دیکھنے اور فائرنگ سُننے کے عادی سے ہوگئے ہیں لیکن آج یوں لگ رہا تھا کہ جیسے دو ملکوں کے بیچ باضابطہ جنگ ہورہی ہو،اس سے پہلے یقیناََ ہم نے اتنی شدید فائرنگ ہوتے نہیں دیکھی ہے“۔
غار میں موجود تیسرے جنگجو نے پورا دن اس طرح سرکاری فورسز کو اُلجھائے رکھا کہ آپریشن کے ختم ہوجانے تک یہ فورسز اس شک میں مبتلا رہیں کہ غار میں کئی جنگجو موجود ہیں اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کر رہے ہیں۔چناچہ دن میں کئی بار فوج اور پولس حکام نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہاں کئی جنگجو موجود ہوسکتے ہیں اور اس وجہ سے زمینی فوج کے علاوہ دو ہیلی کاپٹروں کو بھی آپریشن میں شامل کیا گیا تھا۔تاہم شام گئے فائرنگ کا سلسلہ رُک جانے پر فورسز کو غار میں سے محض ایک جنگجو کی لاش برآمد ہوئی اور یوں اس آپریشن یں کُل تین جنگجو مارے گئے۔
جھڑپ کے دوران لوگوں کو احتجاجی مظاہرے کرکے جنگجووں کی مدد کو آنے کے خدشہ سے پہلی گولی چلنے کے ساتھ ہی فورسز نے ترال اور آس پروس کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات بند کروادی تھیں تاہم اسکے باوجود بھی ستورہ میں کافی لوگ جمع ہوگئے اور اُنہوں نے زبردست احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے جائے واردات کی جانب جانے کی ناکام کوششیں کیں۔مظاہرین کو روکنے کیلئے فورسز نے اشک آور گیس کے گولے داغنے کے علاوہ،ہوائی فائرنگ کی اور پیلٹ گن چلائی ۔یہاں کئی لوگ زخمی بھی ہوگئے ہیں جنہیں تاہم نزدیکی اسپتالوں میں علاج کرنے کے بعد رخصت کردیا گیا ہے۔لوگوں نے بتایا کہ دن بھر اتنی شدید فائرنگ ہوتی رہی کہ پورا علاقہ دہل اُٹھا۔ستورہ میں ایک نوجوان نے کہا”حالانکہ اب ہم فورسز اور مجاہدین کے بیچ جھڑپیں ہوتے دیکھنے اور فائرنگ سُننے کے عادی سے ہوگئے ہیں لیکن آج یوں لگ رہا تھا کہ جیسے دو ملکوں کے بیچ باضابطہ جنگ ہورہی ہو،اس سے پہلے یقیناََ ہم نے اتنی شدید فائرنگ ہوتے نہیں دیکھی ہے“۔