سرینگر// ممبرِ اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے امرناتھ یاتریوں پر ہوئے حملے کی تحقیقات کیلئے خصوصی تفتیشی ٹیم ،یا ایس آئی ٹی،کی تشکیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ اس معاملے میں خود پولس اور دیگر سرکاری ایجنسیاں مشکوک ہیں لہٰذا اس کی تحقیقات کسی بین الاقوامی ایجنسی سے کرائی جانی چاہیئے۔جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی پر جاری پابندی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا ہے کہ امرناتھ یاترا ایک ہلاکت خیز حملے کے باوجود جاری ہے لیکن جامع مسجد میں نماز کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
آج یہاں سے جاری کردہ ایک بیان میں انجینئر رشید نے خاتون لیڈر سیدہ آسیہ اندرابی کو جموں میں قید کئے جانے پر سرکار کو پھر آڑھے ہاتھوں لیا اور کہا کہ عورت ذات کی عزت و توقیر کی باتیں کرنے والوں نے ایک بیمار خاتون کو جموں کی تپتی گرمی میں رکھا ہوا ہے اور اُنہیں وہاں اذیتیں دی جا رہی ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے”آسیہ اندرابی کا کیا قصور ہے کہ رات دن عورت ذات کی عزت و توقیر کی بات کرنے والے انہیں کشمیرکی بجائے جموں کی تپتی گرمی میں اذیتوں کا نشانہ بنا رہے ہیں“۔دخترانِ ملت کی صدر سیدہ آسیہ اندرابی اپنی ایک ساتھی فہمیدہ صوفی سمیت مہینوں سے جموں کی امپھالا جیل میں نظربند ہیں حالانکہ سیدہ اندرابی دمے کے علاوہ کئی طرح کے عارضوں میں مبتلا ہیں اور ،اُنکی تنظیم و احباب کے مطابق، اُنکے ڈاکٹروں نے جموں کے ماحول کو اُنکی صحت کیلئے انتہائی مضر بتایا ہے۔ دخترانِ ملت نے حال ہی الزام لگایا تھا کہ سرکار دراصل سیدہ آسیہ اندرابی کو ایک سازش کے تحت ختم کرنا چاہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں کے خبردار کرنے کے باوجود بھی اُنہیں جموں کی تپتی گرمی میں مناسب طبی سہولیات کے محروم رکھا گیا ہے۔انجینئر رشید نے اس سے قبل بھی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں دخترانِ ملت کی صدر کی نظربندی کا معاملہ اُٹھاتے ہوئے اس بات کو افسوسناک بتایا تھا کہ محبوبہ مفتی نے خود عورت ذات ہونے کے باوجود بھی اندرابی کی علالت کا لحاظ کئے بغیر اُنہیں جموں کی جیل کو منتقل کرایا ہوا ہے۔ اُنہوں نے کہا تھا”سرکار اتنا بھی آسیہ اندرابی سے کیا مرعوب ہے کہ اُنہیں جموں کی امپھالا جیل کو بھیجا جاچکا ہے ،اُنہیں رہا کیا جانا چاہیئے تھا اور اگر سرکار اُنسے اتنا ہی خوف کھاتی ہے تو پھر اُنہیں رہا نہ سہی وادی کی کسی جیل میں منتقل کیا جانا چاہیئے“۔
”اگر چہ مناسب رہتا کہ مذکورہ سانحہ کی کسی بین الاقوامی تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعے تحقیقات کرائی جاتی لیکن نئی دلی اس کیلئے کبھی تیار نہیں ہوگی کیونکہ وہ اپنے ہی عیبوں سے پردہ اُٹھانے کی حماقت نہیں کر سکتی۔ SITکا قیام اس لئے بھی مضحکہ خیز ہے کہ جہاں عسکری تنظیموں نے متعلقہ واقعہ سے مکمل لا تعلقی کا اظہار کیا ہے وہاں عام لوگوں سے لیکر صاحب الرائے اشخاص کی اُنگلیاں بھی سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف اُٹھتی ہیں، ایسے میں مشتبہ لوگوں سے ہی واقعہ کی تحقیقات کرانا نہ صرف بے معنیٰ ہے بلکہ زخموں پر نمک پاشی کے مترادف فعل ہے“۔
امرناتھ یاتریوں پر ہوئے حملے کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی پولس ٹیم کو رد کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا ہے کہ چونکہ،بقولِ اُنکے،اس حملے کے حوالے سے خود سرکاری ایجنسیوں کا رول مشکوک ہے لہٰذا وہ اس حملے کی تحقیقات نہیں کرسکتی ہیں بلکہ اسکی تحقیقات کسی بین الاقوامی ایجنسی سے کرائی جانی چاہیئے۔بیان میں درج ہے”اگر چہ مناسب رہتا کہ مذکورہ سانحہ کی کسی بین الاقوامی تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعے تحقیقات کرائی جاتی لیکن نئی دلی اس کیلئے کبھی تیار نہیں ہوگی کیونکہ وہ اپنے ہی عیبوں سے پردہ اُٹھانے کی حماقت نہیں کر سکتی۔ SITکا قیام اس لئے بھی مضحکہ خیز ہے کہ جہاں عسکری تنظیموں نے متعلقہ واقعہ سے مکمل لا تعلقی کا اظہار کیا ہے وہاں عام لوگوں سے لیکر صاحب الرائے اشخاص کی اُنگلیاں بھی سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف اُٹھتی ہیں، ایسے میں مشتبہ لوگوں سے ہی واقعہ کی تحقیقات کرانا نہ صرف بے معنیٰ ہے بلکہ زخموں پر نمک پاشی کے مترادف فعل ہے“۔
یہ کسقدر مضحکہ خیز بات ہے کہ یاترا پر حملے کے باعث سات یاتریوں کی بیہیمانہ ہلاکت کے باوجود نہ صرف یاترا زور و شور سے جاری ہے بلکہ ساری انتظامیہ کے پاس جیسے یاترا کے سوا کوئی کام ہی نہیں ہے جبکہ اس کے بر عکس اکثریتی طبقہ نہ سرکار سے جامعہ مسجد میں نماز کے انعقاد کیلئے کسی سیکورٹی کا تقاضا کرتا ہے اور نہ ہی وہاں نمازیوں کو کسی طرح کا کوئی خطرہ درپیش ہے لیکن اس کے با وجود انہیں مذہبی فریضہ ادا کرنے سے روکا جا رہا ہے ۔
جامع مسجد سرینگر کو مسلسل دوسرے ہفتے نمازیوں کیلئے جمعہ کے متبرک موقعہ پر سیل کئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے انجینئر رشید نے پولیس اور سیول انتظامیہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ سنگ پریوار اور دیگر بنیاد پرست ہندو تنظیموں کے بالائی ورکروں کی طرح کام کر رہے ہیں۔اُنہوں نے کہاہے کہ جہاں ایک طرف دلی سے لیکر سرینگر تک ہر کوئی یاتریوں کی آﺅ بھگت اور حفاظت میں لگا ہوا ہے وہاں ریاست کے اپنے شہریوں کو مذہبی حقوق تک سے بھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت محروم رکھا جا رہا ہے ۔ اُنہوں نے کہا ہے”یہ کسقدر مضحکہ خیز بات ہے کہ یاترا پر حملے کے باعث سات یاتریوں کی بیہیمانہ ہلاکت کے باوجود نہ صرف یاترا زور و شور سے جاری ہے بلکہ ساری انتظامیہ کے پاس جیسے یاترا کے سوا کوئی کام ہی نہیں ہے جبکہ اس کے بر عکس اکثریتی طبقہ نہ سرکار سے جامعہ مسجد میں نماز کے انعقاد کیلئے کسی سیکورٹی کا تقاضا کرتا ہے اور نہ ہی وہاں نمازیوں کو کسی طرح کا کوئی خطرہ درپیش ہے لیکن اس کے با وجود انہیں مذہبی فریضہ ادا کرنے سے روکا جا رہا ہے ۔ دلی کی پشت پناہی والی انتظامیہ جان بوجھ کر مسلمانوں کے جذبات کوصرف اس لئے مجروح کر رہی ہے تاکہ لوگ رد عمل میں احتجاج کریں اور سرکاری پولیس اور فوج کو ان پر گولیاں چلانے اور دہشت مچانے کا جواز مل سکے“۔