جامع مسجد میں لگاتار چوتھے جمعہ کو بھی نماز پر پابندی

سرینگر// سرینگر کے پائین علاقہ میں آج لگاتار تیسرے دن بھی کرفیو جیسی صورتحال جاری رہی اور لوگوں کو آزادانہ نقل و حمل کی اجازت نہیں ملی جبکہ یہاں کی مرکزی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی پر پابندی جاری ہے۔

12جولائی کو وسطی ضلع بڈگام میں جاں بحق کئے گئے حزب المجاہدین کے تین جنگجووں میں پائین سرینگر کے نوہٹہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے سجاد گلکار بھی شامل تھے۔سجاد کے مارے جانے کی خبر کے ساتھ ہی پولس نے شہرِ خاص میں پابندیاں عائد کردی تھی جنہیں کل 13جولائی کو یومِ شہداءکے حوالے سے اور آج جمعہ کی وجہ سے جاری رکھا گیا۔انتظامیہ کو خدشہ تھا کہ آج یہاں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہو سکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق آج جمعہ کولگاتار تیسرے روزشہرِ خاص کے بیشتر علاقوں میں حفاظت کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے ۔ ان ذرائع کے مطابق نوہٹہ ،گوجوارہ،راجوری کدل،صراف کدل،کادی کدل اور ملحقہ علاقوں میںدورانِ شب ہی پولس کا گشت بڑھا دیا گیا تھا اور سبھی چوراہوں پر رکاوٹیں کھڑا کی گئی تھیں۔پولیس تھانہ خانیار، رعناواری،نوہٹہ،مہاراج گنج، صفاکدل، مائسمہ اور کرالہ کھڈ کے تحت آنے والے بیشتر علاقوں میں پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کو اہم سڑکوں ،چوراہوںاور شاہراہوں پر تعینات کیاگیا تھا اور جگہ جگہ ناکے بٹھائے گئے تھے۔سرکاری طور پر ان علاقوں میں دفعہ144کے تحت امتناعی احکامات نافذ رہے تاہم مقامی لوگوں نے بتایا کہ کچھ علاقوں میں کرفیو کے نفاذ کا باضابطہ اعلان کیا گیا او ر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ پیدل چلنے والوں کی نقل و حرکت مکمل طور مسدود کھی گئی۔

سلطان زین العابدین عرف بڈشاہ کے والد سلطان سکندر کے ذرئعہ پندرہویں صدی میں بنوائی جا چکی،شہر کے نوہٹہ علاقہ میں واقع، جامع مسجد کا کشمیر کی تحریک کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور جب جب یہاں بغاوت ہوئی ہے جامع مسجد کسی نہ کسی شکل میں اسکا حصہ مانی جاتی رہی ہے اور پھر اسے بھی عتاب کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔چناچہ سکھوں اور ڈوگرہ شاہی کے دور میں یہ مسجد لگاتار برسوں بند رہتی آئی ہے۔

لوگوںکے مطابق سخت ترین پابندیوں کے باعث نوہٹہ میں قائم تاریخی جامع مسجد میں مسلسل چوتھے ہفتے نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ مسجد کی طرف جانے والے تمام راستے مکمل طوربند کردئے گئے تھے اور وہاں کی طرف جانے کی کسی کو اجازت نہیں دی گئی ۔ بعض ذرائع کے مطابق پولس نے مسجد کے سبھی پھاٹکوں پر تالے چڑھارکھے تھے ۔واضح رہے کہ ماہ ِرمضان کے آخری جمعہ سے سخت پابندیوں کے باعث جامع مسجد میں اب تک نماز جمعہ ادا کرنے کی کبھی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ یہ لگاتار چوتھا جمعہ گذرا کہ جب لوگوں کو جامع میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ جامع مسجد میں ڈوگرہ دور کے زوال کے بعد پہلی مرتبہ رمضان کے آخری جمعہ ،جسے جمعتہ الوداع کہا جاتا ہے،کو بھی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔

سلطان زین العابدین عرف بڈشاہ کے والد سلطان سکندر کے ذرئعہ پندرہویں صدی میں بنوائی جا چکی،شہر کے نوہٹہ علاقہ میں واقع، جامع مسجد کا کشمیر کی تحریک کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور جب جب یہاں بغاوت ہوئی ہے جامع مسجد کسی نہ کسی شکل میں اسکا حصہ مانی جاتی رہی ہے اور پھر اسے بھی عتاب کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔چناچہ سکھوں اور ڈوگرہ شاہی کے دور میں یہ مسجد لگاتار برسوں بند رہتی آئی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ1842میں سکھ دورکے آخری گورنر شیخ انعام الدین کے دورمیں اس تاریخی مسجد کو کھولا گیا تاہم اس دوران مسلسل11برسوں تک مسجد میں صرف نماز جمعہ ہی ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس دوران جمعہ کو کچھ گھنٹوں کیلئے ہی مسجد کو کھولا جاتا تھا اور بعد میں بند کیا جاتا تھا تاہم1898کے بعد ہی مسجد کو کھولا گیا۔

حزب کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے پر گذشتہ سال اس مسجد کو قریب چار ماہ تک بند کردیا گیا اور یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی تاہم گذشتہ سات سال میں یہ پہلی بار ہے کہ جب جامع کو رمضان کے متبرک مہینے میں پہلے بھی جمعہ کے موقعہ پر،پھر جمعتہ الوداع کے خصوصی موقعہ پر اور پھر تب سے لگاتار بند کرکے یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی۔

موجودہ تحریک کے دوران بھی اسے آئے دنوں نمازیوں کے لئے بند کردیا جانا ایک معمول سا بن گیا ہے۔ قریب تیس سال پہلے جموں کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہونے کے بعد سے یہ مسجد بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں کا مرکز بن کے اُبھری ہے اور ہر جمعہ کو نماز کے بعد ہزاروں لوگ جلوس نکالنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں جنہیں روکے جانے کے بعد نوجوانوں اور سرکاری فورسز کے مابین جھڑپیں یہاں ہر جمعہ کا معمول ہو گئی ہیں۔

حزب کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے پر گذشتہ سال اس مسجد کو قریب چار ماہ تک بند کردیا گیا اور یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی تاہم گذشتہ سات سال میں یہ پہلی بار ہے کہ جب جامع کو رمضان کے متبرک مہینے میں پہلے بھی جمعہ کے موقعہ پر،پھر جمعتہ الوداع کے خصوصی موقعہ پر اور پھر تب سے لگاتار بند کرکے یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی۔

Exit mobile version