سرینگر// ریاست میں جی ایس ٹی کے نفاذ کی مخلافت کے لئے بنائے گئے تاجروں،صنعت کاروں اور سیول سوسائٹی کے ممبران کی کارڈی نیشن کمیٹی کی جانب سے آج کشمیر بند کی کال دی گئی ہے جسکا زبردست اثر دیکھا جارہا ہے۔پولس نے گزشتہ روز یٰسین خان،شکیل قلندر،ڈاکٹر مبین شاہ اور دیگر کئی تاجر لیڈروں سمیت قریب ایک سو تاجروں و دیگراں کو احتجاج کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔بعدازاں کمیٹی نے آج کے لئے کشمیر بند کی کال دی تھی۔
چناچہ سرینگر میں آج سبھی چھوٹے بڑے بازار بند ہیں اور دیگر کاروباری اداروں میں بھی کام کاج بُری طرح متاثر ہوکے رہ گیا ہے۔لالچوک،جہانگیر چوک،ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ، ریذیڈنسی روڑ اور دیگر علاقوں میں دکانیں بند ہیں جبکہ پائین شہر میں انتظامیہ نے پابندیاں لگاکر کرفیو جیسی صورتحال بنائی ہوئی ہے۔یہاں کے لوگوں نے بتایا کہ اُنکی آزادانہ نقل و حمل پر پابندی ہے اور علاقے میں کئی جگہوں پر سڑکوں کو ریزر دار تار اور دیگر رُکاوٹوں سے بند کردیا گیا ہے۔
اس دوران سرینگر کے باہر کے قصبہ جات سے بھی یہاں مکمل ہڑتال ہونے کی اطلاعات ہیں۔ذرائع کے مطابق ان علاقوں میں دکانیں بند ہیں اور تاجر برادری احتجاج پر ہے۔ واضح رہے کہ جموں کشمیر سرکار بھارت کی دیگر ریاستوں کی ہی طرح جموں کشمیر میں بھی جی ایس ٹی کے نفاذ کی کوشش میں ہیں تاہم تاجروں اور اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس نئے ٹیکس قانون کے اطلاق کی وجہ سے ریاست کی ”خصوصٰ پوزیشن اور مالی خود مختاری“متاثر ہوجائے گی جسکے لئے وہ تیار نہیں ہیں۔ چناچہ سرکاری منصوبوں کے خلاف تاجروں ،صنعت کاروں ،سیول سائٹی کے ممبران اور دیگراں نے ایک کارڈی نیشن کمیٹی قائم کر لی ہے جسکے قائدین نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں سرکار کو سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران کمیٹی نے سخت تیور دکھائے اور کہا کہ جی ایس ٹی کو موجودہ حالت میں نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ہائی کورٹ کے سابق جج حسنین مسعودی نے کہا کہ لوگوں اور تاجروں کو اس قانون کے اطلاق پر جو تحفظات ہیں،انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔اُنہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت دیگر ملکوں میںرائج جی ایس ٹی ماڈل پر تحقیق کرکے موافق اور بہتر نمونے کا انتخاب کرکے اسے نافذ کرے اور اس میں کسی قسم کی عجلت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیئے۔اُنہوں نے واضح کیا کہ کشمیر کی سیول سوسائٹی ٹیکس اصلاحات کے خلاف نہیں ہے،تاہم ریاست کی خصوصی پوزیشن کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ریاست کو خصوصی پوزیشن حاصل نہیں ہوتی اور اسکی اہمیت نہ ہوتی تو پھر پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے کسی بھی قانون میں”ماسوائے جموں کشمیر“کے الفاظ درج نہیں ہورہے ہوتے۔حسنین مسعودی نے کہا کہ اس ایک جملے میں اُن سارے سوالات کا جواب ہے کہ جو جی ایس ٹی کے نفاذ سے متعلق جاری تنازعے پر اُٹھائے جا رہے ہیں۔سابق جج نے کہا کہجی ایس ٹی کو موجودہ حالتمیں لاگو کرنے کے بعد ریاستی سرکار کے پاس حصول ٹیکس،اس کے نرخ طے کرنے اوربعض اشیاءکواستثنیٰ دینے کا اختیار باقی نہیں رہے گا اور یوں ریاست ”مالی خود مختاری“کھو دے گی۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر ڈاکٹر مبین شاہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ کشمیری عوام،تاجر اور صنعت کار کسی بھی طور وہ جی ایس ٹی قبول نہیں کرینگے،جس سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو زک پہنچے کا احتمال ہو۔اُنہوں نے کہا کہ حکومت یا اپوزیشن پر ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے ممبرانِ اسمبلی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کا تحفظ کریں۔ ڈاکٹر مبین شاہ نے کہا کہ کشمیر کارڈی نیشن کمیٹی کو2008کی طرز پر تشکیل دیا گیا ہے اور اگر سرکار نے من مانی کرنے کی کوشش بھی کی،کمیٹی 2008کی طرح احتجاجی پروگرام دینے پر مجبور ہو جائے گی۔