ترال// حزب کمانڈر بُرہان وانی کی پہلی برسی سے قبل پولس نے اُنکے والد مظفر وانی کو مقامی تھانے پر طلب کرکے اُنسے پوچھ تاچھ کی ہے۔اس دوران مرکزی وزارتِ داخلہ نے ریاست میں جنگجوئیت کی پہچان بن چکے وانی کی برسی کے موقعہ پر کسی بھی صورتحال سے نپٹنے کے لئے سرکاری فورسز کو تیار بتایا ہے جبکہ اس موقعہ پر سینکڑوں افراد کو ”ٓحتیاطی حراست“میں لئے جانے کا امکان ہے۔
”وہ یونہی تھانے سے گذر رہے تھے اور ایس ایچ او نے اُنکے ساتھ کچھ دیر کے لئے گفتگو کی ہے“۔ (ایس پی زاہد ملک)
ذرائع کا کہنا ہے کہ بُرہان وانی کے والدمظفر وانی ،جو پیشے سے اُستاد ہیں،کو دورانِ ڈیوٹی تھانہ پولس ترال سے فون کرکے تھانے پر طلب کیا گیا تھا جسکے فوری بعد وہ تعمیلِ حکم میں ایس ایچ او ترال کے پاس حاضر ہوئے۔ان ذرائع کے مطابق مظفر وانی کو حراست میں تو نہیں لیا گیا البتہ ایس ایچ او مذکورہ نے اُنسے بُرہان وانی کی برسی کے موقعہ کسی خاص تقریب کے انعقاد کے ارادے کے بارے میں دریافت کیا۔
ذرائع کے مطابق مظفر وانی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے بیٹے کی برسی کے موقعہ پر کوئی خاص تقریب کا انعقاد کرنے والے ہیں اور اگر ہاں تو اس تقریب کی نوعیت کیا ہوگی اور اس میں کس کس کو مدعو کیا گیا یا کیا جانے والا ہے۔ تاہم سینئر وانی نے اس طرح کے کسی بھی پروگرام کے انعقاد سے انکار کیا ہے۔ ذرائع نے مظفر وانی کو پولس کے سامنے کہتے ہوئے بتایا”میں کوئی لیڈر تو ہوں نہیں کہ کوئی پروگرام منعقد کروں لیکن ہاں اگر علاقے کے نوجوان یا مزاحمتی تنظیمیں کوئی پروگرام منعقد کرتی ہیں تو میں اُنہیں روک نہیں سکتا ہوں اور نہ ہی اس طرح کے کسی پروگرام کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہوں“۔معلوم ہوا ہے کہ کچھ دیر کی پوچھ تاچھ کے بعد وانی کو جانے کی اجازت دی گئی۔پولس ڈسٹرکٹ اونتی پورہ کے ایس پی زاہد ملک نے اس سلسلے میں ذرائع کو بتایا کہ مظفر وانی کو تھانے پر طلب نہیں کیا گیا تھا بلکہ ”وہ یونہی تھانے سے گذر رہے تھے اور ایس ایچ او نے اُنکے ساتھ کچھ دیر کے لئے گفتگو کی ہے“۔
جموں کشمیر میں جنگجوئیت اور خود مسئلہ کشمیر کی پہچان بن چکے بُرہان وانی گذشتہ سال8جولائی کو جنوبی کشمیر کے کوکرناگ علاقہ میں ایک مختصر اور پُراسرار جھڑپ کے دوران اپنے دو ساتھیوں سمیت مارے گئے تھے اور اس واقعہ کے خلاف وادی میں ایک زبردست احتجاجی تحریک اُٹھی تھی جسکا زور ٹوڑنے کے لئے سرکاری فورسز نے سو بھر کے قریب افراد کو جاں بحق اور ہزاروں کو زخمی کردیا تھا جن میں سے سینکڑوں کی آنکھیں پیلٹ گن کا شکار ہوکر کُلی یا جزوی طور ناکارہ ہوگئی ہیں۔اس احتجاجی تحریک کے دوران وادی¿ کشمیر میں تقریباََ چھ ماہ تک بلا ناغہ ہڑتال رہی تھی اور سرکار اور اسکے ادارے عملاََ ناکارہ ہوکے رہ گئے تھے۔
”میں کوئی لیڈر تو ہوں نہیں کہ کوئی پروگرام منعقد کروں لیکن ہاں اگر علاقے کے نوجوان یا مزاحمتی تنظیمیں کوئی پروگرام منعقد کرتی ہیں تو میں اُنہیں روک نہیں سکتا ہوں اور نہ ہی اس طرح کے کسی پروگرام کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہوں“۔ (بُرہان کے والد)
اس تحریک کے بعد بُرہان وانی کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک کی ایک علامت کے بطور اُبھرے ہیں اور اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سرکاری ایجنسیوں کو وانی کی پہلی برسی کے موقعہ پر مزید احتجاجی مظاہرے ہونے یہاں تک کہ جنگجوو¿ں کی جانب سے حملے کئے جانے کا خدشہ ہے۔چناچہ جنگجو تنظیموں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل نے گزشتہ دنوں ہفتے بھر کا ایک طویل احتجاجی پروگرام دیا تھا تاہم بعدازاں حُریت کی شکایت پر اس پروگرام کو کونسل نے ”بیس کیمپ“تک محدود کرتے ہوئے وادی،جسے میدانِ کارزار بتایا گیا ہے،کا پروگرام سید علی شاہ گیلانی کی قیادت والی ”مشترکہ قیادت کی صوابدید“پر چھوڑ دیا ہے۔ مشترکہ قیادت نے گئی شام کو ایک احتجاجی کلینڈر جاری کرکے7سے13جولائی تک کا پروگرام جاری کیا ہے جسکے تحت 8اور13جولائی کے لئے ہڑتال کی کال دی جاچکی ہے۔
اس دوران خبررساں ایجنسیوں نے مرکزی وزارتِ داخلہ کے افسروں کے حوالے سے کہا ہے کہ بُرہان کی برسی کے موقعہ پر سرکاری فورسز کے زائد از بیس ہزار افراد کو تعینات کیا جائے گا اور کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نپٹنے کی ساری تیاری مکمل کی جا چکی ہے۔ خبررساں ایجنسیوں نے آئی جی کشمیر منیر خان کے حوالے سے کہا ہے کہ پولس نے ”احتیاطی نظربندی کا فیصؒہ لیا ہے اور احتجاجی مظاہروں کے ناظمین کو بند رکھا جائے گا“ اگرچہ اُنہوں نے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے امکان کو رد کردیا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ اس فیصؒے کے تحت مختلف پولس تھانوں نے نوجوانوں کو اپنے یہاں طلب کرنا شروع کیا ہے اور اُنہیں بتایا گیا ہے کی حکم کی تعمیل کی صورت میں اُنہیں باضابطہ گرفتار کر لیا جائے گا۔